سر سے دیوانگی نہیں جاتی
زندگی  کیوں سکوں  نہیں پاتی
شام کتنی اداس ہے جاناں
آج کی رات تو ٹھہر جاتی
جان کہہ کر اسے پکارا تھا
کیوں نہ آنچل ہوا میں لہراتی
شام ڈھلتے ہی  پار دریا کے
روز  کوئی غزل ہے وہ گاتی
ہائے وہ کیا غضب کی لگتی ہے جب
ہونٹوں کو ہے  دبا کے  شرماتی
جب تری یاد آتی ہے عاصم
رات بھر نیند پھر نہیں آتی

0
83