درد میں ڈوبی کبھی شام نہ ہونے دوں گا
تیرے ہونٹوں پہ کبھی جام نہ ہونے دوں گا
خون  دل دے کے ترا حسن  سجایا ہم نے
اے وطن تجھ کو میں نیلام نہ ہونے دوں گا
تنہایاں دوریاں مجبوریاں  رسوائیاں غم
اپنی چاہت کا یہ انجام نہ ہونے دوں گا
میری قسمت میں ہو کے نا ہو   الگ بات سہی
تیری الفت کو میں  بدنام نہ ہونے دوں گا
تیرے افکار تری شاعری کو میں عاصم
  میرا وعدہ  ہے کہ  گمنام نہ ہونے دوں گا

0
70