تاریخ کے ورق پہ وہی نام لکھے گا
جو ظلم کے خلاف علم لے کے اُٹھے گا
ہر دور کے یزید سے تم کو ہی لڑنا ہے
اب کوئی بھی فرات کنارے نہ اترے گا
تُو رات کی سیاہی مقدر نہ مان لے
ان ہی اندھیروں سے کوئی سورج بھی نکلے گا
نفرت کی آگ میں جو بھی جلا، وہ مٹ گیا
بس نام ہے وفا کا جو آخر میں چمکے گا
کب تک دریدہ وقت کو ہم دیکھتے رہیں
اُٹھو گے تو یہ طوفاں بھی رستہ بدل لے گا

0
7