| کیا کمی ہے بندگی میں، کیوں خدا ملتا نہیں |
| راتوں کی تنہا دعاؤں میں پتا ملتا نہیں |
| خوف رہتا ہے مسلسل، زندگی کے شور میں |
| ڈھونڈتا ہوں جس کو میں وہ آشنا ملتا نہیں |
| اک سراپا ہے کہ آنکھوں میں کہیں ہے کھو گیا |
| عکس تو ملتا ہے لیکن، عکس سا ملتا نہیں |
| جتنے چہرے تھے وہ سب نقشِ تمنا ہی رہے |
| کب سے تنہا ہوں میں کوئی ہم نوا ملتا نہیں |
| میں نے ہر در پر صدا دی، ہر جگہ سجدہ کیا |
| تجھ کو پانے کا کوئی بھی راستہ ملتا نہیں |
| یاد کی خوشبو تو ہر لمحے مہکتی ہے مگر |
| چھو سکوں جس کو، کبھی بھی نقشِ پا ملتا نہیں |
معلومات