کیا کمی ہے بندگی میں، کیوں خدا ملتا نہیں
راتوں کی تنہا دعاؤں میں پتا ملتا نہیں
خوف رہتا ہے مسلسل، زندگی کے شور میں
ڈھونڈتا ہوں جس کو میں وہ آشنا ملتا نہیں
اک سراپا ہے کہ آنکھوں میں کہیں ہے کھو گیا
عکس تو ملتا ہے لیکن، عکس سا ملتا نہیں
جتنے چہرے تھے وہ سب نقشِ تمنا ہی رہے
کب سے تنہا ہوں میں کوئی ہم نوا ملتا نہیں
میں نے ہر در پر صدا دی، ہر جگہ سجدہ کیا
تجھ کو پانے کا کوئی بھی راستہ ملتا نہیں
یاد کی خوشبو تو ہر لمحے مہکتی ہے مگر
چھو سکوں جس کو، کبھی بھی نقشِ پا ملتا نہیں

0
6