ہم لوگ ظلم سہنے کے عادی ہو گئے ہیں
تیرے بغیر جینے کے عادی ہو گئے ہیں
اے زندگی سکوں بھی تم کو ملے کہیں پر
دشتِ سفر میں رہنے کے عادی ہو گئے ہیں
سب بھول ہی گئے ہیں اخلاق کے تقاضے
ہم دوسروں پہ ہنسنے کے عادی ہو گئے ہیں
ہر خواب کو شکستہ سینے میں دفن کر کے
صبر و رضا سے جینے کے عادی ہو گئے ہیں
انصاف اب یہاں ملتا ہے سِکوں کے دم پر
ایسے ملک میں رہنے کے عادی ہو گئے ہیں
ہم شہر میں متاعِ عزت لٹا کے عاصم
تیری گلی میں رہنے کے عادی ہو گئے ہیں

0
5