آج کی اس سے ملاقات کے بعد
پھر بچا ہی نہیں کچھ بات کے بعد
چاند رُک سا گیا ہے کھڑکی پر
دل مہکنے لگا برسات کے بعد
دل کے زخموں نے صدا دی پھر سے
جوش کی "یادوں کی بارات" کے بعد
خواب بکھرے ہوئے ہیں آنکھوں میں
تیری اک پل کی عنایات کے بعد
پہلے ہی دل تھا غموں سے لبریز
بڑھ گئیں اور بھی شکایات کے بعد
آنکھ نم، لب پہ لرزتی سی ہنسی
دیر تک روئے ملاقات کے بعد
کچھ تو بکھرا ہے مرے سینے میں
دل نہیں قابو میں جذبات کے بعد
پھول خوشبو کے لہو میں بھیگے
تُو ملا ہے مجھے برسات کے بعد

0
9