بیٹی جب بھی خوشبو کے موسم سجا کے جاتی ہے |
خوشیاں دے دیتی ہے غم سارے چھپا کے جاتی ہے |
اس کی باتوں میں ماں کی ممتا کی خوشبو ہوتی ہے |
یادوں کے سب بوجھ وہ ہلکا بنا کے جاتی ہے |
چہرے پر جب بھی تھکن کے سائے گہرے چھاتے ہیں |
پھولوں جیسی باتوں سے وہ غم بُھلا کے جاتی ہے |
وہ مری تقدیر کو سب خوشیوں سے بھر دیتی ہے |
دکھ کے سارے زخموں پر مرہم لگا کے جاتی ہے |
ہنستی ہے جب وہ بڑی معصوم لگتی ہے مجھے |
دل کا یہ سنساں نگر گلشن بنا کے جاتی ہے |
جب بھی رخصت ہوتی ہے وہ آنکھوں میں نمی دے کر |
دل میں اک خالی سا کمرہ اور بنا کے جاتی ہے |
معلومات