| چلو ایسا میں کرتا ہوں زمانے بھرکے سارے غم |
| کدو میں ڈھانپ کر اپنے وجودِ حبس کرتا ہوں |
| تمہاری چاہ کی خاطر میں خود کو بیچ کر جاناں |
| خودی کو مار کر اپنی میں سوئے جرس کرتا ہوں |
| اٹھا لوں کیا گری پگڑی لٹی عزت کو چوکھٹ سے |
| یا مجھ کو دان کردو گے سوالِ ترس کرتا ہوں |
| تجھ سے ملتے ہی سناتا ہے ترانے کیا کیا |
| دل یہ پاگل ہے بناتا ہے فسانے کیا کیا |
| تیرے ملنے پہ شکایت کوئی کرتا بھی نہیں |
| نہ ملے تُو تو لگاتا ہے نشانے کیا کیا |
| اپنی ہستی تو تری ذات سے تعمیر ہوئی |
| دل تجھے دیکھے تو مانگے ہے نہ جانے کیا کیا |
| وصل نعمت ہے تو پھر دل کا یہ چبھنا کیسا |
| دل میں پچھتاوا ہے کیوں دل کا یہ کڑھنا کیسا |
| سحر غم خوار ہے تو شمس بلکتا کیوں ہے |
| آنکھ پرنم ہے یہ کیوں دل کا یہ بجھنا کیسا |
| دل ہے گر تیرا تو پھر سوچ پہ پہرا کیسا |
| روز اشکوں سے مری سوچ کو پڑھنا کیسا |