گر کے اٹھنے پہ سنبھلنے کی صدا دیتے ہیں |
ہم تجھے ظرف کی کم ظرف دعا دیتے ہیں |
دل ترا بغض سے ہو جائے کبھی تو خالی |
ہم تجھے صبر کی بے صبر قبا دیتے ہیں |
کیسے احساس میں مرتے ہیں کہ ہم جینے کو |
مٹنے والوں کو بھی بسنے کی سزا دیتے ہیں |
وہی بدبخت ہیں جو کاٹ کے سر ہنستے ہیں |
صدق والوں کو بھی کربل میں دغا دیتے ہیں |
آ بھی جائے جو مسیحا تو یہی لوگ کہیں |
ہم نہیں مانتے جو حق کا پتا دیتے ہیں |
ہوش میں رہتے نہیں چاکِ گریباں والے |
عشق میں مجنوں سبھی خود کو مٹا دیتے ہیں |
دکھنے لگتا ہے اندھیرے میں اجالے کا سماں |
اپنے کاجل کو وہ جب آنکھ دکھا دیتے ہیں |
آگ لگ جاتی ہے برسات میں کہساروں کو |
اپنے آنچل کو وہ جب مکھ سے ہٹا دیتے ہیں |
ان کی نظروں سے جو لڑتی ہیں نگاہیں میری |
قتل کرتے ہیں مجھے نیند اڑا دیتے ہیں |
تیرے آنے سے خزاؤں کا بدلتا ہے لباس |
بوسے پھولوں کے تجھے رنگِ حنا دیتے ہیں |
تیرے ہونٹوں کے تصور سے نکھرتی ہے فضا |
شعلے رخسار بنے دیپ جلا دیتے ہیں |
برق بھی دیکھے اگر دیکھ کے جل جاتی ہے |
دلنشیں ساز بھی کچھ ابر بجا دیتے ہیں |
معلومات