| جن سے ٹوٹے ہوئے دل پل میں ملائے جائیں |
| درس گاہوں میں وہ اسباق پڑھائے جائیں |
| جن سے ماں باپ کی عظمت کا چلن بڑھتا ہو |
| میرے بچوں کو وہ آداب سکھائے جائیں |
| جس میں ہو ووٹ کی حرمت کا سبق لکھا ہوا |
| قوم کو میری وہ ابواب رٹائے جائیں |
| جس سے بچ جائے کسی فرد کی عزت کا لباس |
| عشق والوں کو وہ انداز بتائے جائیں |
| جن کے ہاتھوں سے ٹپکتا ہو لہو آدم کا |
| ان کے شملے تو سرِ عام جلائے جائیں |
| جن کو دنیا کی سمجھ عشق سے کچھ فردا ہو |
| ایسے سب لوگ تو منصور بنائے جائیں |
| جن کے محراب جبینوں کے فقط داغ رہیں |
| ان کے سجدوں میں زرا اشک ملائے جائیں |
| جن کی پوجا سے محبت کا چلن مٹ جائے |
| ایسے سب بت تو سرِ راہ گرائے جائیں |
| جن سے آنکھوں کی نمی زخموں میں ڈھلتی جائے |
| ایسے لوگوں پہ نہ یوں اشک بہائے جائیں |
| جن کی خوشبو سے تعصب کا چلن مٹ جائے |
| پھول دھرتی پہ تو کچھ ایسے کِھلائے جائیں |
معلومات