تُو نصاب ہے مرے عشق کا تجھے میں پڑھوں گا سکون سے
تُو کتاب ہے مرے بخت کی تجھے میں لکھوں گا سکون سے
تُو نقاب ہے مرے درد کا تُو مرے وجود کا ساز ہے
تُو گلابِ حسن کا روپ ہے تجھے میں چنوں گا سکون سے
تُو یقین ہے مری سوچ کا تُو خیال ہے مرے ربط کا
تُو شباب ہے مرے وصل کا تجھے میں تکوں گا سکون سے
تُو ثواب ہے مری عمر کا تُو صلہ ہے میری پکار کا
تُو رباب ہے مرے شوق کی تجھے میں دھروں گا سکون سے
تُو نماز ہے مرے فرض کی تُو ہے سجدہ میرے حصول کا
تُو حساب ہے مرا دہر میں تجھے میں رٹوں گا سکون سے
تُو حیاتِ سبزہ سے معتبر تو نوائے قلب کا زیر و بم
تُو خطاب ہے مرے نفس کا تجھے میں ملوں گا سکون سے
تُو نشہ ہے حسن و جمال کا تُو غرور ہے شبِ ناز کا
تُو شراب ہے مرے صبر کی تجھے میں چکھوں گا سکون سے
میں جواب ہوں تری رمز کا میں سوال ہوں ترے سوز کا
میں سراب ہوں ترے دشت کا تجھے میں دکھوں گا سکون سے

0
323