چلو آؤ رکھ دیں اناؤں کو کسی اجنبی سی منڈیر پر
درِ یار عشق کو روک لیں پسِ پشت رکھ دیں خطاؤں کو
چلو آؤ باندھ لیں ہجر کو غمِ دلبری کے مقام سے
جہاں بات ہو مرے عشق کی پسِ مرگ رکھ دیں جفاؤں کو
چلو آؤ یاد کی دھند کو یوں بکھیریں اپنے وجود پر
کریں یاد چہرہ وہ دلربا کریں یاد اس کی وفاؤں کو
چلو آؤ وصل کی ناؤ پر کوئی راگ چھیڑیں خلوص کا
کوئی ٹھمری گائیں سرور کی کوئی نغمہ چھیڑیں عطاؤں کا
چلو آؤ رقص میں ڈوب کر کسی ناخدا کو پکار لیں
چلو آؤ مانگ لیں ساحری جو عروج بخشے دعاؤں کو

0
71