مجھے اوزان سمجھا دو ادھورا اک میں شاعر ہوں
مجھے بحروں میں لپٹا دو ادھورا اک میں شاعر ہوں
مجھے بس اتنا سمجھا دو یہ ارکانِ غزل کیا ہیں
مجھے قانون بتلا دو ادھورا اک میں شاعر ہوں
مجھے حافی ہی سمجھو تم مجھے زریون تم سمجھو
مجھے محفل میں بھجوا دو ادھورا اک میں شاعر ہوں
مجھے پیسے کمانے ہیں ادب کا خون کر کر کے
مجھے حافی سے ملوا دو ادھورا اک میں شاعر ہوں
جو غزلیں ہیں ادھوری وہ مجھے سب بیچ دو یارو
مری غزلیں کو پڑھوا دو ادھورا اک میں شاعر ہوں
تخلص کیسا اپناؤں کسے استاد میں بولوں
مجھے مشہور کروا دو ادھورا اک میں شاعر ہوں
جو چلتی ہو سخن بازی تو مجھ کو بھی صدا دینا
سفارش میری چلوا دو ادھورا اک میں شاعر ہوں

0
110