| شجر سوکھے تو موسم کو کبھی گالی نہیں دیتا |
| ہرے پتوں کو جیسے زندگی مالی نہیں دیتا |
| کمینہ زندگی میں بات اچھی کر نہیں سکتا |
| اندھیرے کو خدا جیسے کبھی لالی نہیں دیتا |
| خدا دیتا نہیں ہے دل کسی کو بھی کبھی کالا |
| زباں تو وہ کسی کو بھی کبھی کالی نہیں دیتا |
| بھکاری کا سخاوت سے کبھی رشتہ نہیں بنتا |
| بھرا ہو پیٹ بھی اس کا تو وہ تھالی نہیں دیتا |
| جنازے پر بھی پھیلا ہاتھ جیبوں تک ہی جاتا ہے |
| یہ مُلا ہے دعا بھی تو کبھی خالی نہیں دیتا |
| شکن ہی داد ہے اس کی تکبر ہی نشانی ہے |
| بڑا شاعر ہے ہاتھوں کی کبھی تالی نہیں دیتا |
| زرا سا سوچ کر لینا ہے اس میں سانپ کی فطرت |
| منافق تو منافق ہے وہ دل خالی نہیں دیتا |
| شجر کو بانٹ لیتے ہیں پرندے پیار سے لیکن |
| عجب انسان ہے انساں کو ہی ڈالی نہیں دیتا |
معلومات