پاس آؤں تو وہ کہتا ہے میرے پاس نہ آ
دور ہو جاؤں تو کہتا ہے نباض ہے تو
ہاتھ پکڑوں تو وہ ضد کو بڑھا دیتا ہے
چھوڑ دوں ہاتھ تو کہتا ہے ناراض ہے تو
سر جھکا لوں تو نظر بھر کے تکتا بھی نہیں
موڑ لوں سمت تو کہتا ہے فیاض ہے تو
مان لوں بات تو کہتا ہے کیا احسان کیا
کھول دوں لب تو کہتا ہے مقراض ہے تو
میں تو کہتا ہوں تو کیا حسیں ساحر ہے
شعلہ ہے فتنہ ہے اور یارِ اغماض ہے تو

0
67