یہی آس ہے تو جڑی رہے یہ چراغ ہے تو جلا رہے
جو خزاں بھی ہو تو مرے خدا یہ چمن تو یونہی کھلا رہے
مری ذات سے تری ذات کا جو ازن ہے وہ کبھی کم نہ ہو
مرے عشق کا مری چاہ کا جو شجر ہے یونہی ہرا رہے
اسی ارضِ پاک پہ کٹ مروں نہ یہ سر جھکے نہ یہ دل ڈرے
یہ فنا ہی میری بقا بنے عَلم اونچا اس کا سدا رہے
مجھے پیار کر جو ترا ہوں میں مجھے خود میں یوں تُو سمیٹ لے
مری زندگی ترا عکس ہو ترا عکس میری عطا رہے
مجھے ہے پتہ تو ہے عارضی کسی اور در کا جہان ہے
مجھے ہے پتہ تو مرا نہیں مری ضد ہے ربط بندھا رہے
نہ ہی قتل ہو کسی سوچ کا نہ ہی بکتا کوئی ضمیر ہو
یہاں عَلم اونچا ہو عِلم کا نہ کسی کی کوئی خطا رہے
مجھے دے پتہ کوئی آفتاب مرے یار کا مرے پیار کا
درِ یار چوموں میں اس طرح وہ کبھی نہ مجھ سے خفا رہے

62