| جہاں جہاں سے میں گزروں تجھے صدائیں دوں |
| میں تجھ کو یاد کروں تجھ کو میں دعائیں دوں |
| ملے پتہ جو مجھے یار کا تو پھر یارو |
| میں اس کے ہاتھوں کو چوموں اسے قبائیں دوں |
| میں حسرتوں کو کسی روز گھر میں دعوت دوں |
| میں ماروں باندھ کے سب کو انہیں سزائیں دوں |
| میں کیوں بتاؤں اسے کچھ دنوں کا میلہ ہے |
| جلے چراغ کو سوچو میں کیوں ہوائیں دوں |
| میں کیسے رکھ لوں قدم سوچ کے جزیروں پر |
| میں کس طرح سے نئے پیار کو وفائیں دوں |
| میں کیسے سوچ سے دل سے اتار دوں اس کو |
| میں کیسے خود میں جیوں عشق کو انائیں دوں |
| میں سوچتا ہوں اسے چھین لوں میں دنیا سے |
| اسے چھپا کے رکھوں قرب کی عطائیں دوں |
| آفتاب شاہ |
معلومات