مکھڑا اس کا کتاب جیسا ہے
گویا کھلتے گلاب جیسا ہے
جس کی پوجا ہے عاشقی میری
اس کو تکنا ثواب جیسا ہے
باتیں اس کی ہیں زندگی میری
لہجہ اس کا تو خواب جیسا ہے
روز کرتا ہے دشمنی مجھ سے
پردہ اس کا عذاب جیسا ہے
اس کے چلنے پہ دھڑکنیں دھڑکیں
اس کا رکنا رکاب جیسا ہے
جسم جس کا ہے شاعری رب کی
بدن اس کا اناب جیسا ہے
ہنسنا اس کا ہے بلبلوں جیسا
تکنا اس کا عقاب جیسا ہے
آنکھیں جس کی غزال جیسی ہیں
نشہ اس کا شراب جیسا ہے
خال جس کا ہے دلبری اپنی
گال اس کا مذاب جیسا ہے
بال اس کے سنہری چھلے ہیں
چھلا ہر اک طناب جیسا ہے
ہونٹ ہیں جس کے آتش و شعلہ
روپ اس کا شہاب جیسا ہے

0
62