وہ شوخ فطرت وہ عکسِ قدرت چہک رہی تھی وہ شان والی
ملی مجھےتو ٹھٹک کے بھٹکی وہ تتلیوں کی اڑان والی
پلٹ کے دیکھا تھا اس نے مجھ کو پلٹ کے واپس وہ جا نہ پائی
ملی مجھے تو سسک کے پلٹی انا کی بیٹی وہ مان والی
بدن کے گہنوں کو جو چھپا کر ہمیشہ ملتی تھی فاصلے سے
ملی مجھے تو برس کے بہکی حیا کی ناری وہ تان والی
جو خود کو کہتی تھی آج تک میں کبھی کسی سے جلی نہیں ہوں
ملی مجھے تو جلن سے تڑپی تڑپ کے بکھری وہ آن والی
جو سوچتی تھی ہے پیار دھوکہ میں عشق والوں کا دم بھروں گی
ملی مجھے تو بکھر کے نکھری ادا کی شبنم وہ دان والی
جسے کسی نے دیا تھا دھوکہ جسے پتہ تھا ہے مرد دھوکہ
ملی مجھے تو وفا سے مہکی اٹھان والی وہ جان والی

0
62