| جنہیں فکر تھی مری ہر گھڑی وہی لوگ جانے کدھر گئے |
| جنہیں پیاس تھی مری دید کی وہی لوگ کیسے بکھر گئے |
| جو اجڑ گئے تری چاہ میں جنہیں روگ لگتی تھی عاشقی |
| وہی بزم میں تجھے دیکھ کر نہ ادھر گئے نہ ادھر گئے |
| ترے ہجر نے جو ڈسا تو پھر مری سوچ خود سے بچھڑ گئی |
| مری نیند بکھری در بدر مرے خواب سوئے بھنور گئے |
| تری یاد کی جو صدائیں تھیں وہ اتر گئیں مری ذات میں |
| لگی آگ میرے وجود کو تو بھڑک کہ ہم بھی نکھر گئے |
| جو نکھرتے تھے تری دید سے تری چشمِ تر کی نوید سے |
| ہوئے وہ خفا تری چاہ سے تو ستم زدہ سے نگر گئے |
| جنہیں لگتا تھا ترا عکس ہی ہے حصار ان کے وجود کا |
| وہی عشق سے جو پرے ہٹے تو نہ جانے کس کی ڈگر گئے |
معلومات