بدن ہے کانچ کانچ سا خطا کی تیز آنچ سا |
پگھل رہا ہے آگ میں وجودِ عشقِ نام سے |
ہوس کی اونچی شاخ پر ٹھکانہ ہے ہواؤں کا |
گماں کا دیپ جل اٹھا خطوطِ حسنِ خام سے |
دھنک بنی ہوئی حیا بدن کا روپ دھار کے |
بدل رہی ہے پیرہن مقیمِ صبح و شام سے |
سرور جسم و جان کا بدل گیا سزاؤں میں |
قفس میں رقص تھم گیا تکا جو اس نے بام سے |
دکھا وہ پھر مرا مرا نہ خود کا بھی وہ ہو سکا |
جو عشق میں ہوا مگن گیا وہ اپنے کام سے |
سنبھل سنبھل کے گر گیا کھڑا کھڑا ہی چل دیا |
جو زندگی سے بچ گیا بچا نہ اس کے دام سے |
حیات جل ترنگ سی صبو کے صبحِ رنگ سی |
نظر میں چھپ گیا فلک پیا جو اس کے جام سے |
فنا سے لافنا ہوا خطر سے بے خطر ہوا |
نظر جو پڑ گئی ادھر ہوا میں خاص، عام سے |
معلومات