شورش ہے بزمِ عشق میں مہکی ہے یہ زمیں
ہوتا ہے میری آہ سے شہپر بھی دیدہ بیں
نجمِ جہاں سے آج بھی جلتا ہے گلستاں
آہو کی چشم زینتِ رونق ہے گریہ دیں
وحدت عیاں ہے ذرے میں سودائے جستجو
غنچہ ہے گل کا خار تو گل ہے ترا مکیں
عصرِ رواں کے چاک بھی سلنے لگے یہیں
سیلِ رواں کو تھام کے جھکنے لگی جبیں
عقل و خرد سے دور ہے تقویمِ دور عشق
تقویمِ دور عشق کا ساقی تو ہے حسیں
خونِ جگر سے پھونک دے سوزِ حیات کو
رازِ خودی میں ڈوب کے پیدا تو کر یقیں
نغمہ ہے تیرا عشق تو حرفِ غلط نہ چن
مومن کا روپ دھار کے دیں کا تو بن امیں

147