شورش ہے بزمِ عشق میں مہکی ہے یہ زمیں |
ہوتا ہے میری آہ سے شہپر بھی دیدہ بیں |
نجمِ جہاں سے آج بھی جلتا ہے گلستاں |
آہو کی چشم زینتِ رونق ہے گریہ دیں |
وحدت عیاں ہے ذرے میں سودائے جستجو |
غنچہ ہے گل کا خار تو گل ہے ترا مکیں |
عصرِ رواں کے چاک بھی سلنے لگے یہیں |
سیلِ رواں کو تھام کے جھکنے لگی جبیں |
عقل و خرد سے دور ہے تقویمِ دور عشق |
تقویمِ دور عشق کا ساقی تو ہے حسیں |
خونِ جگر سے پھونک دے سوزِ حیات کو |
رازِ خودی میں ڈوب کے پیدا تو کر یقیں |
نغمہ ہے تیرا عشق تو حرفِ غلط نہ چن |
مومن کا روپ دھار کے دیں کا تو بن امیں |
معلومات