| اینٹ سے گارے سے نہ ہی کچھ قالینوں سے |
| گھر تو بنتا ہے میری جاں چند مکینوں سے |
| ہجر سے وصل سے ملنے کے چند مہینوں سے |
| کشتیاں ڈوب کے ملتی ہیں چند سفینوں سے |
| درد سے داغ سے غم کے چند قرینوں سے |
| میرا تو ربط ہے غم کے انہی دفینوں سے |
| سوچ سے فکر سے جکڑا گیا جو مشینوں سے |
| لوٹ کے آیا ہے واپس انہی زمینوں سے |
| زخم بھی ہم نے بہت اپنوں سے کھائے ہیں |
| رابطہ ہم نے بھی رکھا ہے چند کمینوں سے |
| بکھری ہے خوشبو تجوری میں یہاں سیٹھ کی جو |
| اٹھتی ہے مشک بھی ان کے ہی تو پسینوں سے |
معلومات