کنواں بھرا ہے مگر یارو اس میں پانی نہیں
علم گری ہے عجب جس میں کوئی معنی نہیں
عجیب لفظ ہیں جن سے حروف جلتے ہیں
عجب کتاب ہے جس میں کوئی روانی نہیں
خرد کو دیکھ کے اکثر گمان ہوتا ہے
ضعیف عقل ہے جسکی کسی نے مانی نہیں
فریبِ عمر میں لاشیں پڑی ہیں وعدوں کی
فریبِ عشق میں دل کی کوئی بھی رانی نہیں
رقیب کہہ کے مجھے روز اس سے ملتے ہو
اسی کا عشق ہے سچا مری کہانی نہیں
جو آج ہم ہیں اکیلے تو کچھ عجب بھی نہیں
جو میں نے ٹھانی ہے تم نے کبھی وہ ٹھانی نہیں

0
88