| ہمارے گھاؤ کبھی ہم کو بھی دکھائی دیں |
| علاج ایسا کرو خود کو ہم سنائی دیں |
| کوئی طبیب بھی چارہ گری پہ راضی نہیں |
| مزارِ زیست پہ اب کس کو ہم دہائی دیں |
| مکر گیا ہے مرا یار اپنے وعدے سے |
| تو منصفی پہ اسے کیوں نہ ہم مٹھائی دیں |
| وفا کا سنتے ہی کچھ لوگ مجھ سے کہتے ہیں |
| جناب آپ بھی اس کی کبھی گوائی دیں |
| یہ کیا کہ اوروں میں فیض تیرا بٹتا ہے |
| دو نین تیرے کبھی ہم کو بھی رسائی دیں |
معلومات