اداسیوں کے مہیب سپنے تمہاری آنکھوں کی چلمنوں سے
امڈ رہے ہیں یوں دھیرے دھیرے کہ جیسے شب میں ستارے نکلیں
غموں کی بنجر زمینیں ساری ہری بھری سی گماں میں ٹھہریں
خوشی کے نغمے عروج پر ہوں جو آپ بن کے ہمارے نکلیں
سحر کے شانوں پہ دھند گہری کسی تصور کو کھوجتی ہے
رُتیں کھروچیں اگر بہاریں تو اُن سے اُس کے اشارے نکلیں
شبوں کے زخمی بدن پہ ناگن خوشی کو گِن گِن کے ڈس رہی ہے
سکوں کے لمحے کشید ہوں پھر جو مجھ سے اُس کے نظارے نکلیں
بھنور میں ناؤ کبھی نہ ڈوبے نہ پانیوں کا سکوت ٹوٹے
اگر کہیں سے وفا کے جگنو ٹھہر ٹھہر کے کنارے نکلیں
رفاقتوں کی نمائشوں میں حقیقتوں کے کفن اتارے
گُھٹی محبت کی سسکیوں میں مکیں کے نُچڑے خسارے نکلیں
فتور ممکن ہے نیتوں میں، خلوص شاید ہُما ہے ہمدم
تبھی تو حرص و ہوس کے پنچھی نفس پہ پاؤں پسارے نکلیں

10