آزاد قید میں ہے اور قیدی تخت پر |
اک بدنصیب سایہ ہے قومی بخت پر |
کچھ من پسند مہرے دیوار سے پرے |
ایمان لا رہے ہیں اک بونے پست پر |
اک اجنبی سی طاقت مالک ہے ملک کی |
اک لاش بے بسی کی قابض ہے تخت پر |
کتنا بھروسہ سب نے رکھا ہے آج تک |
اک بے قرینہ عابد، عادت کے مست پر |
مظلوم پوچھتا ہے اب قاضی سے سوال |
ڈالے گا ہاتھ کب تُو اپنے سے سخت پر |
محسن ہی کہہ رہے ہیں غدار تم ہی ہو |
کیا داغ لگ رہا ہے اپنوں کی ہست پر |
اس ہار میں کہیں کیا شامل ہیں شرپسند |
قبضہ ہے جن کا بحر و بر اور دشت پر |
سیکھا نہ سانحوں سے کچھ بے ضمیروں نے |
روئے نہ یہ نہ وہ میاں دھرتی کے لخت پر |
گر وہ ملے تو سب کچھ بے کار ہے میاں |
پھر کیا بھروسہ رکھنا دنیا کے رخت پر |
معلومات