| جڑ گیا میں جو حسیں شخص ترے نام کے ساتھ |
| موت بھی آئے گی مجھ کو بڑے آرام کے ساتھ |
| ڈھل گیا دن بھی تری یاد میں چلتے چلتے |
| مجھ پہ اترے گی مکیں رات تری شام کے ساتھ |
| روشنی وصل کی آتی ہے اذاں کے جیسے |
| وضو کرتی ہے دعا عشق کے الہام کے ساتھ |
| دل تو پابند رہا تجھ سے یہ آگے نہ گیا |
| چہرہ بس ایک پڑھا حرمتِ پیغام کے ساتھ |
| خاک ملنے کی تری اڑتی ہے چاروں جانب |
| گرد کیسے یہ ہٹے ہجر کے انعام کے ساتھ |
| عقل ہر روز یہ کہتی ہے بھلا دے اس کو |
| جس کو تُو یاد بہت کرتا ہے ہر کام کے ساتھ |
معلومات