| (یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا) |
| یوں ہی شکوہ بڑھتا رہتا جو تُو میرا یار ہوتا |
| ترے در کو چومتا میں ترے در کا ہوکے رہتا |
| تجھے اوڑھتا میں خود پر جو تُو بے قرار ہوتا |
| تری سانس بن کے جیتا ترے ہجر میں تڑپتا |
| جو تُو مجھ سے روٹھ جاتا میں بےاختیار ہوتا |
| مرا عشق پوچھتے ہو تری ذات کا سرا ہے |
| میں فلک کو وار دیتا جو تُو سایہ دار ہوتا |
| غمِ میر مجھ میں ہوتا جو تُو ایک بار تکتا |
| میں خودی کو وار دیتا جو میں تیرا پیار ہوتا |
| جو وفا کا نام لیتا میں تری مثال دیتا |
| ترا بت بنا کے رب سا مجھے اعتبار ہوتا |
| مجھے بھول جانے والے مرا دل جلا کے جاتے |
| نہ ہی دل میں آس ہوتی نا ہی انتظار ہوتا |
| جو امیر ہوتا میں بھی مرے آگے پیچھے ہوتا |
| مجھے رکھتا سب سے افضل میں جو زرنگار ہوتا |
| آفتاب شاہ |
معلومات