عشق ہوتا نہیں قصور میاں
یہ ہے فطرت نہیں فتور میاں
جانے والا بھلے چلا جائے
دل میں ریتا ہے وہ ضرور میاں
ڈالی ڈالی پہ پہرا دیتے ہیں
لوگ پنچھی ہیں اور طیور میاں
مٹنے والی یہ اپنی ہستی ہے
خود پہ کیسا یہ پھر غرور میاں
اپنے لکھے پہ نام لکھ چھوڑو
کوئی چرا نہ لے سطور میاں
چھپتا پھرتا ہے سچ کا متوالا
روتا، کڑھتا ہے پھر شعور میاں
گرنے والے کو تھام لیتا ہے
ہے جو ستار اور غفور میاں

0
68