نظروں سے گِر گیا تو اُٹھایا نہیں گیا |
مجھ سے وہ روٹھا شخص منایا نہیں گیا |
اشکوں کو جس نے آنکھ کا زیور بنا دیا |
آنکھوں کی چلمنوں سے ہٹایا نہیں گیا |
ٹوٹا جو ایک بار تو حسرت ہوئی تمام |
مجھ سے دوبارہ دل بھی لگایا نہیں گیا |
مجھ کو مٹانے والے نے سب کچھ مٹا دیا |
مجھ سے تو اس کا نام مِٹایا نہیں گیا |
خوشیوں نے میری سوچ کو دیمک زدہ کیا |
خوشیوں بھرا جو گھر تھا بسایا نہیں گیا |
اس نے مجھے ہرانے کا جب عہد کر لیا |
ہارا وہ شخص مجھ سے ہرایا نہیں گیا |
دنیا میں جاکے میری عبادت کرو گے تم |
ایسا تو ہم کو کچھ بھی سکھایا نہیں گیا |
اس کی تمام باتوں کو مقدس دیا قرار |
مجھ سے تو راز اپنا چھپایا نہیں گیا |
آفتاب شاہ |
معلومات