جس کے تل پر ابھی افسانے لکھے جاتے ہیں |
اس کے عاشق سبھی دیوانے لکھے جاتے ہیں |
جس کے رخساروں پہ تحریر کی جرات نے غزل |
اس کے مجنوں سبھی فرزانے لکھے جاتے ہیں |
جس کے ہونٹوں پہ کبھی میر نے ڈالی تھی نظر |
اس کے واقف سبھی انجانے لکھے جاتے ہیں |
داغ نے رات کو جس زلف سے باندھا تھا کبھی |
اس کے عاشق بھی تو بیگانے لکھے جاتے ہیں |
جس کی آنکھوں کو نشہ کہتا تھا مومن یارو |
اس کے نینوں پہ تو مے خانے لکھے جاتے ہیں |
جام غالب نے پیا جس کی جوانی کا کبھی |
چال پر اس کی تو پیمانے لکھے جاتے ہیں |
معلومات