ڈوبا ہے میرا گاؤں چلتا نہیں ہے زور
خود کو بچاؤں کیسے پانی ہے چاروں اور
کب تک کھڑا رہوں میں ہمت نہیں رہی
گرنے لگا ہوں میں تو کٹنے لگی ہے ڈور
گھر بار میرے بچے سیلاب کی نظر
میرا بھی آنسوؤں پر چلتا نہیں ہے زور
میری شبیہ سے سب کو ہوش آئے گا
مٹی سے لتھڑا لاشہ ناچے گا بن کے مور
اس دن زمانے والوں کو آئے گا خیال
ہوگی نہ میری ہستی ہوگا نہ کوئی شور
کوئی تو ایدھی آئے کوئی تو تھامے ہاتھ
بھیجو کوئی فرشتہ اے رب ہماری اور
ہوتا امیر جو میں رہتا سکوں کے ساتھ
ہوتا وزیر میں تو مٹتی نہ میری گور

0
44