جلنے والوں کو اور ستاتے ہیں
آؤ سورج پہ گھر بناتے ہیں
چندا ماموں سے دوستی کر کے
چرخہ بڑھیا سے چھین لاتے ہیں
پھر سے کرتے ہیں دشمنی خود سے
پھر سے اپنوں کے کام آتے ہیں
آنکھ والوں سے روشنی لے کر
ناک والوں میں بانٹ آتے ہیں
جس میں بندہ نہ کوئی سیدھا ہو
ایسی بستی کوئی بساتے ہیں
بوٹ خواہش میں چاٹنے والے
اپنے لوگوں پہ ہل چلاتے ہیں
ان کو کہتے ہیں چھوڑ دیں وہ ہمیں
سادہ لوگوں سے گھر سجاتے ہیں
ساری دنیا سے مشورہ کر کے
اپنی مرضی کے گیت گاتے ہیں
جن پہ ہو ناز زندگی میں وہی
دل کی اینٹوں پہ بم گراتے ہیں
وعدے کرتے ہیں جینے مرنے کے
دھوکے کیسے یہ دل لبھاتے ہیں
اپنی ہستی میں ڈوبنے کے لیے
اب کے ناؤ ندی پہ لاتے ہیں

0
21