(خوار ہوئے ہم گلیوں گلیوں سر ٹیکے دیواروں سے)
بھیک ملی عزت والوں کو آج کے ٹھیکے داروں سے
رستہ رستہ نگری نگری آنکھیں دید کو ترس گئیں
کہنے کو یہ جنگل بیلے بھرے ہے میرے پیاروں سے
لہو کا رشتہ پھیکا لاگے پھیکن لاگن لوگ تمام
دل کا رشتہ دل پرچا لے دل میں بیٹھے یاروں سے
سنگی ساتھی یار سجن سب مطلب بازی کرتے ہیں
میرے مولا مجھ کو بچا لے ایسے رشتے داروں سے
شہروں شہروں نیچ ہوا ہے ہاتھ و ہنر کا پیمانہ
استاد کا رتبہ کم تر ٹھہرا آج کے ان فنکاروں سے
سینہ میرا چھلنی چھلنی سانس بھی رک رک جائے ہے
روح راضی نا تو راضی ہم جیسے سینہ فگاروں سے
عاشق تیرا پل پل بھڑکے جب جب نظریں ملائے
آگ لگے سینہ ہے جلتا عشق کے ان انگاروں سے

0
81