بے صدا سے شہر میں کچھ لوگ تنہا رہ گئے
آنکھ سے آنسو گرے تو خواب سارے بہہ گئے
بے خبر سی رات میں سنسان گلیوں کے چراغ
رتجگوں کی چاہ میں کیا کیا دلوں پر سہہ گئے
دیکھنے سے لگ رہا ہے آپ بھی واقف سے ہیں
جن پہ نازاں تھے کبھی یہ بات ہم کو کہہ گئے
کیا کریں شکوہ کسی سے زندگی کا ہم میاں
سننے والے سنتے سنتے کب کے زیرِ تہہ گئے
زندگی کی دھوپ میں سایہ تھا جن کے نام کا
کیا ہوئے وہ پیار والے جانبِ وہ چہ گئے
کیا ہوا جو چال چلتے مٹ گئے ہم پٹ گئے
ہم پیادے تھے مگر ہم فکرِ شاہاں شہ گئے
کس نگر میں شمس ڈوبا تارے بھٹکے کس طرف
کس جہاں میں رات ٹھہری ابر ، بادل، مہ گئے

43