الجھی ہوئی لکیروں کا یہ جال دیکھ کر
عامل بھی رو پڑا ہے مری فال دیکھ کر
ایسی لکیر جس پہ ترا نام تھا لکھا
وہ مٹ گئی ہے وقت کی یہ چال دیکھ کر
لالچ کے منہ میں ترس کا پانی سا آ گیا
غربت کی بستیوں میں پڑا کال دیکھ کر
حاکم کی باچھیں کھل گئیں آنکھوں کے ساتھ ساتھ
قرضوں کی مد میں آیا ہوا مال دیکھ کر
آنکھوں کی کھڑکیوں سے تکا چاند کو بہت
ہم نے منائی عید ترا گال دیکھ کر
ہونٹوں کی سسکیوں نے چھوا ہونٹ کو مگر
سانسوں کی چیخ دب گئی وہ خال دیکھ کر
دن نے ترے وجود سے روشن کیا جہاں
اتری نہ شب میں رات ترے بال دیکھ کر
دن بھر پکارتا ہوں ترا نام لیتا ہوں
آئے گا تجھ کو ترس مرا حال دیکھ کر

46