یہ جو تُو تاج محل، تاج محل کرتا ہے
ہاتھ مزدوروں کے کٹتے ہیں تو یہ بنتا ہے
دیکھ تُو خواب مگر اتنا تجھے یاد رہے
عشق غربت کے مکانوں میں سدا مرتا ہے
قید کر لیتا ہے جسموں کو مگر صدیوں سے
بادشاہ عشق کی شدت سے بہت ڈرتا ہے
چھوڑ تُو تاج محل آکے کبھی دیکھ انہیں
جن کی نظروں کے صحیفوں میں جہاں ڈھلتا ہے
سانپ فطرت میں کہاں عشق نگینہ صاحب
یہ تو غم خوار کی عادت میں چھپا ملتا ہے
میرے ہونے سے زمانہ ہے نہ جانو ہرگز
یہ زمانہ ہے مٹاتا ہے کہاں مٹتا ہے

0
45