اجڑے ہوئے دیار کے اجڑے ہوئے مکیں
یہ شہرِ لامکاں ہے یا ہے شہرِ لا مکیں
عابد بھی گمشدہ ہے تو زاہد بھی ہے پرے
ایسی وبا چلی ہے کہ ڈرنے لگی زمیں
تیرے وجود سے ہی تو روشن ہے اسکا عکس
اور عکسِ حسنِ یارِ سے کتنا ہے وہ حسین
یہ درسِ آرزو بھی ہے اور درسِ کبریا
باطل کے آگے جھکنے نہ پائے کبھی جبیں
اپنی خودی کو بیچ کے تو مال و زر نہ مانگ
ہیرا ہی کٹ کے بنتا ہے پھر جوہرِ نگیں
آئے طبیب لاکھ یہاں عشق کے مگر
اس مرضِ لاعلاج کا حل بھی نہیں کہیں
تیرا خیال ہے تو ہے خوشبو گلاب کی
تیرے خیالِ ہے تو ہے یہ زندگی قریں

0
83