قید میں رسموں کی جکڑے ہیں دیوانے کیسے
بند ہیں خواب کواڑوں میں بیگانے کیسے
دل یہ کہتا ہے تیرے ساتھ ہی چلتا جاؤں
وصل کے آتے ہیں مجھے یاد زمانے کیسے
ہجر میں کون تجھے پہلی سی محبت بانٹے
جائے گا دل یہ بھلا تجھ کو منانے کیسے
زہر میں ڈوبے ہوئے لہجوں کے نشیمن میں
لوگ ہیں بیٹھے میرے ساتھ نہ جانے کیسے
پڑھنے والوں سے یہ کیسے پڑھے جائیں گے
لکھنے والے نے لکھے ہیں یہ فسانے کیسے
اپنے اشکوں سے تیری یاد پہ ہم رقصاں ہیں
اشک سے نکھرے ہیں کچھ خواب پرانے کیسے
کہتی ہے آنکھ پتہ لے تُو دلِ ناداں کا
دل یہ کہتا ہے سنا دوں میں ترانے کیسے
عشق میں مجنوں ہے کوئی تو کوئی لیلٰی ہے
ملتے ہیں عشق میں میری جان خزانے کیسے
ملنے کی بات پہ میری جان دغا دیتے ہو
پیار تو پیار ہے پھر اس میں یہ بہانے کیسے
آفتاب شاہ

0
74