ہمارے گھاؤ کبھی ہم کو بھی دکھائی دیں
علاج ایسا کرو خود کو ہم سنائی دیں
کوئی طبیب بھی چارہ گری پہ راضی نہیں
مزارِ زیست پہ اب کس کو ہم دہائی دیں
مکر گیا ہے مرا یار اپنے وعدے سے
تو منصفی پہ اسے کیوں نہ ہم مٹھائی دیں
وفا کا سنتے ہی کچھ لوگ مجھ سے کہتے ہیں
جناب آپ بھی اس کی کبھی گوائی دیں
یہ کیا کہ اوروں میں فیض تیرا بٹتا ہے
دو نین تیرے بھی ہم کو کبھی رسائی دیں

0
47