بات کرتے ہوئے اتنا تُو لرزتی کیوں ہو
کاٹ کر ہونٹ بتا سر کو جھٹکتی کیوں ہو
دیکھ کر مجھ کو بتا اتنا نکھرتی کیوں ہو
دیکھ لوں غیر کو گر اس پہ بگڑتی کیوں ہو
گم نہ ہوجاؤں کہیں ایسے پکڑتی کیوں ہو
مار ڈالو گی مجھے ایسے جکڑتی کیوں ہو
مانتا ہوں کہ مچلنے کا ہنر جانتی ہو
آکے ہر روز سرِ بزم تھرکتی کیوں ہو
بات سنتے ہی خفا ہونے کا ناٹک کیسا
دے دیا دل تو پھر اتنا تُو جھگڑتی کیوں ہو
مجھ کو اچھا نہیں لگتا کہ تجھے دیکھے کوئی
بن سنور کے تُو مری جان گزرتی کیوں ہو
سامنے میرے کوئی لفظ نکلتا بھی نہیں
سامنے سب کے پھر اتنا تُو چہکتی کیوں ہو

0
44