سیدھی سمتوں کا ترچھا کونا تھا
چھوٹی پگڑی میں لمبا بونا تھا
تاج ردی میں بکنے لگتا پر
اُس کو قیدی کا بیج ہونا تھا
ہاتھی گرتا جو گہری کھائی میں
شیر ریڑھی میں کاہے جونا تھا
اُٹھتے اُٹھتے وہ پھر سے بیٹھ گیا
لگتا کرسی کا سارا رونا تھا
چاندی پیتل سے تھوڑی نسلی تھی
لوہا پگھلا تو دکھتا سونا تھا
گولی، خنجر سے بستی والوں میں
ایک پختہ سے ڈر کو بونا تھا
ضدی بچے نے جنگ جیتی پر
ضدی بچے نے ملک کھونا تھا
مجھ کو ملتا جو دھوکہ ہونے پر
زخم گندھک میں جھٹ سے دھونا تھا
سارے رستوں پہ تکنا تھا تجھ کو
تیرے آنے پہ میں نے سونا تھا
ہوتا سنسر جو میرے ہاتھوں میں
کچرا کلچر کا رکھ کے ڈھونا تھا

0
4