مرے ہم نشیں یہ ملال ہے مری زندگی کہیں کھو گئی
مجھے ڈس لیا ترے عشق نے مری دلکشی کہیں کھو گئی
کسی اجنبی کا ہوا نہیں مرا دل بھی کُھل کے کِھلا نہیں
مرا ربط ٹوٹا جو یار سے مری خوش دلی کہیں کھو گئی
وہ عروج تھا تو بتا مجھے یہ عجب سا کیسا زوال ہے
مرا حال اب تو بے حال ہے مری تازگی کہیں کھو گئی
نہ ہی خواب میں کوئی روپ ہے نہ ہی سوچ میں کوئی رنگ ہے
ترا عکس مجھ سے ہے دور جو مری بندگی کہیں کھو گئی
میں کھڑا ہوں کس کے مکان میں ،میں بجھا بجھا ہوں جہان میں
مرا دل بھی لگتا ہے غیر کا مری دل لگی کہیں کھو گئی
وہ جو مہرباں تھا خیال کا مری پختہ سوچ و بچار کا
اسی مہرباں کے بچھڑنے پر مری پختگی کہیں کھو گئی
مجھے مان تھا کہ جو چاک ہیں یہ سلیں رہیں گے سدا یونہی
مرے چاک سلتے ہی پھٹ گئے مری عمدگی کہیں کھو گئی
میں دریدہ ہجر کا باسی ہوں جو مچل رہا ہے وصال کو
ترا لمس نکھرا جو خواب میں مری خستگی کہیں کھو گئی
تُو کہاں گیا مرے ہم نشیں مرے نقش مجھ سے ہیں ہمکلام
مجھے ہے گماں ترے عشق میں مری سادگی کہیں کھو گئی

0
37