| دکھ اگر سوچ کی دھرتی پہ اترتا جائے |
| کالے بالوں کا سرا اگتے ہی مرتا جائے |
| سچ اگر جھوٹ کے آنگن میں بکھرتا جائے |
| قاضی انصاف کی کرسی سے لڑکھتا جائے |
| بیٹھ جائے جو جڑوں میں کسی فرزانے کی |
| عشق گھٹنوں میں پڑی عقل پہ ہنستا جائے |
| درد احساسِ ندامت کی سزایابی سے |
| بن کے پانی کا بھنور اشکوں میں ڈھلتا جائے |
| خود سے افضل جو کمینے سے کہیں ملنا پڑے |
| جُہل اخلاق کے لہجے میں بدلتا جائے |
| دیس میں اپنے جو موسم ہو چناؤ کا کبھی |
| بھاؤ منڈی میں سبھی جھوٹوں کا بڑھتا جائے |
| سچ اگر جھوٹ کی گردن پہ کرے وار کڑے |
| خشک دریا بھی نمی ندیوں میں بھرتا جائے |
معلومات