مرید بیچے مزار بیچا جو بچ گیا تو ثواب بیچا
عجب مداری ہیں پیر میرے جو بچ گیا تو عذاب بیچا
سیاہی بیچی جو تختیوں کی تو ٹاٹ چوکھٹ سکول بیچا
حروف بیچے علوم بیچے جو بچ گیا تو نصاب بیچا
معلموں کو فروخت کر کے معلمی کا شعور بیچا
فنون گر جو گلی میں آئے تو نام افضل کتاب بیچا
ادا کو بیچا صدا کو بیچا پھر اپنی اپنی رضا کو بیچا
بیاض بیچی قصیدہ بیچا جو بچ گیا تو خطاب بیچا
ادیب چھانٹے سخن گروں نے غزل کو بامِ عروج بیچا
ادب کو دفنایا دے کے پھانسی پھر ، قبر پہ رکھا گلاب بیچا

93