رسمِ اغیار مرے یار نہیں لے سکتا |
سوچ بیکار مرے یار نہیں لے سکتا |
بھر نہیں سکتا کبھی جھوٹ سے کاسہ اپنا |
زخمی کردار مرے یار نہیں لے سکتا |
سر کٹا سکتا ہوں گر عشق میں کاٹے کوئی |
شوقِ آزار مرے یار نہیں لے سکتا |
سگ تو رکھ سکتا ہوں لیکن ہے یہ وعدہ اپنا |
یار غدار مرے یار نہیں لے سکتا |
حرف سے لفظ پہ جاؤں گا خودی جاؤں گا |
جھوٹے افکار مرے یار نہیں لے سکتا |
زہر پی لوں گا ترے در سے نہیں جاؤں گا |
تیرا انکار مرے یار نہیں لے سکتا |
ایک ہی کافی ہے گر ہو وہ نبھانے والا |
یار مکار مرے یار نہیں لے سکتا |
اپنے پیالے میں پڑی مے ہی ہے قسمت اپنی |
صوفی میخوار مرے یار نہیں لے سکتا |
اپنے پیاروں سے جدائی نہیں ممکن مجھ سے |
نقلی غمخوار مرے یار نہیں لے سکتا |
میں زمانے سے مرے یار نہیں مل سکتا |
رسمی سنسار مرے یار نہیں لے سکتا |
معلومات