| جو کتابِ عشق کا باب تھا وہ جلا دیا تو بھلا دیا |
| وہ جو سات رنگا گلاب تھا وہ ہٹا دیا تو بھلا دیا |
| مجھے یاد تھا جو کتاب سا جو زبر سے زیر کا پیش تھا |
| جو سیاق سے تھا سباق تک وہ مٹا دیا تو بھلا دیا |
| جسے پڑھتے پڑھتے الجھ گئی مری زندگی بھی حساب سی |
| جو سوال سے تھا جواب تک وہ بتا دیا تو بھلا دیا |
| جو چھپا تھا میرے وجود میں مرے ہاتھ میں مرے ساتھ میں |
| جو عروج سے تھا زوال تک جو گھٹا دیا تو بھلا دیا |
| جو دیا تھا میرے خیال کا جو تھا چاند میرے سرور کا |
| وہ جو روشنی کا دیا سا تھا جو بجھا دیا تو بھلا دیا |
| جو نوائے دل کا مقام تھا جو صدائے دل سے تھا آشنا |
| جو خطا بھی تھا جو عطا بھی تھا وہ سلا دیا تو بھلا دیا |
| جسے مان تھا کہ مرا ہے وہ جو یہ کہتا تھا کہ ترا ہوں میں |
| جو غرور سے تھا بھرا ہوا وہ گنوا دیا تو بھلا دیا |
| وہ جو اجنبی سی منڈیر پر مجھے ملنے آتا تھا دور سے |
| جو یقین سے تھا بھرا ہوا وہ رلا دیا تو بھلا دیا |
| جو مثال تھا کسی حور کی جو کمالِ خال میں روپ تھا |
| جو کمال سے تھا جمال تک وہ جلا دیا تو بھلا دیا |
| آفتاب شاہ |
معلومات