جو پہیلی خود سے جڑی تھی، پر اسے بوجھتا کوئی اور ہے
|
مرے بولنے کی تھی باری، پر وہاں بولتا کوئی اور ہے
|
کبھی چاہیں وہ بے خیالی میں بھی تو ہوں بے سود ہی چاہتیں
|
"میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے"
|
سبھی مرحلوں پہ ہمیں قدم تھے بڑھانے پھونکتے ہی مگر
|
ہمیں چوکسی تھی برتنی پر، یہاں چونکتا کوئی اور ہے
|
|