Circle Image

Nasir Ibrahim Dhamaskar

@Nasir.Dhamaskar

@nasir

نہ کیوں ہوں شادماں آزاد ہیں ہم
نرالا ہے سماں آزاد ہیں ہم
غلامی کے چھٹیں بادل ہیں سارے
بنا اپنا جہاں آزاد ہیں ہم

0
16
الفت کا میں اپنے کبھی اظہار کروں گا
سوئے ہوئے جزبات کو بیدار کروں گا
تنہائی میسر ہو سکے فاش کروں راز
بے لوث وفا کا کہیں اقرار کروں گا
بھٹکے ہوئے راہی کے اگر بھیس میں مل جاؤ
موسم ہو حسیں رکنے کا اصرار کروں گا

0
25
رچی ہے خوشبو فضا میں گلاب آزادی
زباں پہ جاری ہے ہر سو خطاب آزادی
چڑھائیں گردنیں علما نے سولی پر اپنی
"کبھی تو کھول کے پڑھ لے کتاب آزادی"
گواہ شاملی کی جنگ خونچکاں بنی ہے
لہو بہا کے ہوئے فیضیاب آزادی

0
28
پڑھ رہا ہوں سلام چاہت میں
در پہ کر لوں قیام چاہت میں
پیارے آقا ؐ پہ جان و دل ہے فدا
عشق کا پی لوں جام چاہت میں

0
15
گناہوں کے سبب عذاب ملتا ہے
بھلائی کا مگر ثواب ملتا ہے
نصیب اوج کا یہ باب ملتا ہے
"صنم کے ملنے سے گلاب ملتا ہے"
حشم خدم، نعم کرم کا ہو بھرم
بشر وہ پھر بہ آب و تاب ملتا ہے

30
بجلی ہو منقطع تو ہے، دشوار رابطہ
موسم میں ہو خرابی، ضرردار رابطہ
رسم معانقہ کو ادا کرنے ہو پہل
تہوار عید کا ہے، سزاوار رابطہ
سکھ میں ہزار ساتھی ملے، دکھ میں نا کوئی
کرتے ہیں جو غمی میں اثردار رابطہ

0
13
تقاضائے طبیعت زر کی خواہش میں مچل جائے
تعیش کی تپش زوری سے دل اپنا ابل جائے
نہ مغلوب گماں ہونا، نہ کاوش سے مکرنا ہے
"ہوائیں سر پھری تھم جائیں تو موسم بدل جائے"
ہے رغبت تو مقدر ہو درخشاں طفل مکتب کا
اگر جہد مسلسل کے یہاں سانچہ میں وہ ڈھل جائے

0
40
حکم خالق کا ہیں لائے مصطفی ؐ
جانفزا مژدہ سنائے مصطفی ؐ
دین برحق کا تعارف کر دیا
"راہ حق ہم کو دکھائے مصطفی ؐ"
جم گئی وحدانیت سینوں میں ہے
عزوجل سے ملائے مصطفی ؐ

0
16
قلب مضطر سے جو ارمان نکل آتے ہیں
زیست میں ویسے ہی فرحان نکل آتے ہیں
ابتلا میں تو نہ کمیاں رہیں تھیں کچھ لیکن
"ملک غم سے نئے فرمان نکل آتے ہیں"
بخت برگشتہ میں بیدار دلی پیدا ہو
ضوفشاں شمع شبستان نکل آتے ہیں

0
26
ابن حیدر ؓ پہ دل یہ شیدا ہے
عالی اس شان کا ہی جلوہ ہے
ظلمت رنج میں سکت پانے
"حوصلہ کربلا سے ملتا ہے"
ہے گماں سے پرے پرکھ لینا
بار اندوہ جو من پہ چھایا ہے

0
24
حزن و الم سے پھیلی ہر سو فضائے غم ہے
عشق حسین ؓ میں بھی جاری نوائے غم ہے
سبط نبی پہ وارے اہل و عیال اپنی
"احساس کربلا ہے، دل میں صدائے غم ہے"
اصغر ؓ کی اور اکبر ؓ کی ہم کو آتی يادیں
گریہ وزاری سے سب کرتے ادائے غم ہے

0
36
نمازوں کو اپنی نہ ہرگز قضا کر
عذاب الہی سے ہر وقت ڈرا کر
مٹا دے تو ہستی خدا کی رضا میں
عبادت، ریاضت میں خود کو فنا کر
ہے راہ ہدایت پہ چلنا ہمیشہ
سراسر ضلالت سے راہیں جدا کر

0
26
تیر یہ دل پہ چلایا ہے کس نے
جال میں پنچھی پھنسایا ہے کس نے
جس پہ شبہ تھا وہی تو ہے ہمدرد
"غیر کو سینے لگایا ہے کس نے"
منچلے شوخ یہ کیوں ہیں ارادے
خام خیالی اٹھایا ہے کس نے

0
21
عقیدت کا اظہار ہے نم نگاں سے
بپا شور ماتم کا ہے ہم نواں سے
اگر سینہ میں ابن حیدر ؓ کا ہے عشق
"کرو ذکر ان ؓ کا لرزتی زباں سے"
چہیتے ہیں ہم کو پسر مرتضی ؓ کے
فضا گونجی ساری آہ و فغاں سے

0
20
دونوں جہاں میں شہرہ چلیگا حسین ؓ کا
ڈنکا زمانہ بھر میں پٹیگا حسین ؓ کا
رسوائی تو یزید کے حصہ میں آگئی
تاحشر ذکر چلتا رہیگا حسین ؓ کا

0
17
ناز و فخر سے کہتے ہم حسین والے ہیں
کام حق سدا کرتے ہم حسین والے ہیں
ہاتھ باطلوں کے ہم ہاتھ میں نہیں دیں گے
راہ حق پہ ہی چلتے ہم حسین والے ہیں
مال و جاں نچھاور ہے دین مصطفی پر سب
دین کے لئے لڑتے ہم حسین والے ہیں

0
20
وفا میں روح باقی سادگی کے ساتھ رہے
ثبات عشق کی پاگیزگی کے ساتھ رہے
نہ ہو سکیں گے فراموش تاحیات کبھی
"وہ حادثے جو مری زندگی کے ساتھ رہے"
صریح حکم عدولی سے بے سکونی ہو
قرار و لطف مگر بندگی کے ساتھ رہے

0
20
اے عظمت و بزرگی کے مینار السلام
اے تابناک دین کے سالار السلام
جو تن تنہا یزیدیوں سے سینہ سپر ہوئے
اے ‌فاطمہ و علی کے جگردار السلام
کیا بھوک و پیاس، کیا لو تپش، سب ہی سہ گئے
اے کربلا میں بر سر پیکار السلام

0
19
سب کو پکارتا ہے وہ میدان کربلا
ہے حق شعاری کی بڑی پہچان کربلا
ہے خانوادۂ نبی ؐ کا رتبہ بے نظیر
تڑپائے عاشقوں کو یہ سوہان کربلا
شعلہ فگن ہے تذکرہ مردہ ضمیری میں
گر داستان کا رہے عنوان کربلا

0
22
محرم کا مہینہ خیر ہے لایا عزیزو
مبارک! سال نو اسلام کا آیا عزیزو
عزائم ہو نئے، دل میں ہو ماضی پر ندامت
کریں سب احترام و قدر فرمایا عزیزو
عبادت سے، تلاوت سے، بٹوریں نیکیوں کو
رواں اس ماہ میں ہے لطف کا دریا عزیزو

0
17
خواب اک مدتوں سے ہے پالا ہوا
اس کو پانے کا جزبہ ہے ابھرا ہوا
مسکراہٹ لبوں پر نہ دوڑے گی اب
"غم ہی غم ہے فضاؤں میں چھایا ہوا"
کیسی دلدوز یادیں وہ تڑپاتی ہیں
جاں گزا سانحہ سے ہے سہما ہوا

0
26
ہر کوئی اب سویرا چاہتا ہے
حسن چہرے پہ نکھرا چاہتا ہے
دام الفت کی منزلت ہے بہت
"دل لگی کو ستارا چاہتا ہے"
اس کو اونچی اڑان بھرنی ہے
چاند پر جو بسیرا چاہتا ہے

0
25
گھرانہ جن کا اعلی وہ، حسین ابن علی ہیں
ثنا خواں دست بستہ وہ، حسین ابن علی ہیں
نواسے ہیں نبی کے، لعل و گوہر فاطمہ کے
عظیم الشان رتبہ وہ، حسین ابن علی ہیں
سخاوت میں، سیادت میں نہ ان کا کوئی ثانی
کیا دکھ کا مداوا وہ، حسین ابن علی ہیں

0
25
میدان کار زار میں چٹان ہیں حسین
دہلا دے جو عدو کو وہ طوفان ہیں حسین
اہل شباب کے ہوں گے جنت میں جو امام
وہ معرفت کے مقتدا عرفان ہیں حسین
تن چھلنی، سر کٹا ہوا روشن دلیل چھوڑی
"دین نبی کے سچے نگہبان ہیں حسین"

0
18
جگر سوز ماحول بے حد گراں ہے
ستائے یہ رہ رہ کے ٹیس و فغاں ہے
تبسم سے جھیلیں ستم سارے ہم نے
"سفر زندگی کا مسلسل رواں ہے"
رقم ہوگی تاریخ کوئی یہاں گر
سنائے زمانہ وہ پھر داستاں ہے

0
21
عشق نبی میں راس ہے مستان وغیرہ
دنیا کو بھی کھونے کا نہ افغان وغیرہ
نذرانہ سلاموں کا ہے گل پوشی کی مانند
"کیوں بھائیں بھلا اب مجھےگل دان وغیرہ"
بس گنبد خضری کا ہو دیدار جو حاصل
بے معنی یہ پھر نعمت الوان وغیرہ

0
24
اعزاز، افتخار اداکاریوں میں ہے
غم خواری، میل جول رواداریوں میں ہے
آداب، جی حضوری یہ پہچاں ہے مختلف
فرمان، رعب داب جہاں داریوں میں ہے
بد طالعی خطاؤں کی سوغات بن گئی
پوشیدہ بدشگونی یہ بدکاریوں میں ہے

0
32
کیوں جگری یار اہل فغانی ہے ان دنوں
کچھ تو سبب ہو، طبع گرانی ہے ان دنوں
روداد چھڑ گئی ہے محبت کی ہر طرف
"سب کی زباں پہ میری کہانی ہے ان دنوں"
موسیقی، رقص و گیت کے بن محفلیں کہاں
سنگیت کی دھنوں پہ مغانی ہے ان دنوں

0
29
اپنے مالک سے مدینہ کی زیارت مانگوں
تازگی دل کو ملے ایسی حلاوت مانگوں
حاضری روضہ پہ ہو فضل سے اے مولا جب
سجدۂ شکر کو کرنے کی سعادت مانگوں
پیش نذرانہ درودوں کا ادب سے کر پاؤں
سر جھکائے کھڑے ہونے کی لیاقت مانگوں

0
30
مست کن فرد جو جیالے ہیں
دہر میں سب سے وہ نرالے ہیں
جان من تیرگی نہ رہ پائی
"ہم تری صبح کے اجالے ہیں"
سنوری تقدیر سے ہوا ثابت
حسن تدبیر کے حوالے ہیں

0
29
جو ملت سے اپنے وفادار ہوں گے
وہ ہر مسئلہ سے خبردار ہوں گے
بدن کو تھکائے، پسینہ بہائے
ہمہ وقت دھن میں گرفتار ہوں گے
فنا رہتے ہیں بہتری میں جو اکثر
سدا خیر کے ہی طلبگار ہوں گے

0
27
جو رہ گئے ہیں اب تک ارمان نا مکمل
گر پورے ہو نہ جائیں، پہچان نا مکمل
احساس جاگ جائے تو ہے بسا غنیمت
جب کہتے ہیں وہ عہد و پیمان نا مکمل
روزوں کے ساتھ جوڑیں خیرات اور ترویحہ
تسبیح نہ تلاوت، رمضان نا مکمل

0
27
بلا وجہ نہیں گھبرائیں گے زمان سے ہم
نہ خوف کھائیں گے پھر سیخ پا بیان سے ہم
سنہری یادیں لئے سوگئے تو سپنے میں
"اتر کے آئے ترے پاس آسمان سے ہم"
نیاز مند نہ رہ پائے غم یہ کھاتا ہے
جو چاہتے نہیں تھے کہہ گئے زبان سے ہم

0
26
نیک طینت کے جو سایہ میں جواں ہوتا ہے
اس کی پیشانی سے ایمان عیاں ہوتا ہے
غیر کے حزن پہ اظہار خوشی سے توبہ
جینا اس طرح مگر بار گراں ہوتا ہے
اپنے غم بھول کے ہونٹوں پہ ہنسی ہے لوٹی
"وہ تبسم جو حقیقت میں فغاں ہوتا ہے"

0
32
جام کیا یہ ساقی سجا گئے
تشنگی ہی من کی مٹا گئے
تکتی رہ گئی پیاسی نظریں بس
"جاتے جاتے وہ مسکرا گئے"
حال دل زباں پر نہ آسکا
کچھ اشاروں سے پر بتا گئے

0
19
ہو خواب اگر پختہ، بکھرنے کے نہیں ہیں
بھٹکائیں اسے لاکھ ،بھٹکنے کے نہیں ہیں
جب رونق محفل ہی اجڑ جانے لگی ہو
"ہم خود ہی مری جان سنورنے کے نہیں ہیں"
رکھتے ہیں جو پاکیزگی باطن میں بسائے
شیطاں کے وساوس سے، بہکنے کے نہیں ہیں

0
24
شہ دوجہاں کی ہے سیرت عزیز
شہ انبیا کی نبوت عزیز
خدا وحدہ، احمد مرسلین
ہے دین مبیں کی شریعت عزیز
مزہ آئے نام محمدکو رٹنے
درودں کی ہم کو فضیلت عزیز

0
20
زور گر ہو نظم کا نگراں معزز
زیرکی کا وصف ہے شایاں معزز
زین حاصل ہو ریاضت کرنے سے پھر
"زہد اور تقوی سے ہے انساں معزز"
زعم پر ثابت قدم رہنا ہے ان کو
زیب و زینت کے جو ہیں خواہاں معزز

0
22
عیش و عشرت کے ہو ساماں تو پھسل جاتے ہیں لوگ
ہلکی تحسین و ستائش سے چہل جاتے ہیں لوگ
زیب و زینت کا زمانہ پر خطر ہے دوستوں!
"دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ"
کرتے ہیں اعراض سارے کسمپرسی میں مگر
مال و دولت کے خزانے ہو، پگھل جاتے ہیں لوگ

0
23
غیض و غضب میں رنگ یہ سرخاب سا ہوا
مغموم چہرہ، دل بھی یہ درداب سا ہوا
سرشار انبساط میں وارفتہ کھو گیا
"جب سن کے تیرا نام وہ بیتاب سا ہوا"
کچھ مسکراہٹوں کی یہ سوغات کیا ملی
زخم پنہاں کو جیسے یہ سیماب سا ہوا

0
16
دل جلے دلبر کے فغاں اور بھی ہے
زخم کہن، قلب تپاں اور بھی ہے
راہ سے بھٹکانے کی شاید کڑی ہو
"نقش پا کے دیکھے نشاں اور بھی ہے"
چاند ستاروں کی طرف اب ہیں قدم
پردہ کے اس پار جہاں اور بھی ہے

0
20
نظارہ روح پرور آپ سے ہے
سرور و کیف و انور آپ سے ہے
مہکتا ہے یہ من صل علی سے
سکون دل میسر آپ سے ہے"
ضیا ارض و سما پر چھائی ہر سو
مہ و انجم منور آپ سے ہے

0
12
اصلاح کے ہی بن گئے افکار، معترض
تردیدی زاویہ ہو تو اقدار، معترض
مشکل سے دیدہ ور ملے گا اس چمن میں پر
ہر دلعزیز ہے، وہی سالار معترض
انداز ہے زمانہ کا برعکس دوستو!
جس کا نہ کوئی والی ہے، نادار معترض

0
23
اہل فن ہے نہ پسر کیا کرتے
شکوہ کس سے ہو پدر کیا کرتے
ہو چکی تنگ زمیں ہے اپنی
"لے کے ہم شمس و قمر کیا کرتے"
جس پہ نظریں جمی تھیں مدت سے
پھیر لی اس نے نظر کیا کرتے

0
13
ہیں نمودار یہ آثار سبھی آہوں کے
شب کی تاریکی میں آنکھوں سے بہے اشکوں کے
وقت سے بڑھ کے نہیں مرہم نہ دیکھا ہو
"زخم بھرنے لگے ہیں پچھلی ملاقاتوں کے"
کچھ توقف کے ارادے کی ہوئی حسرت کیوں؟
ہیں نشانات جہاں ابھرے تری قدموں کے

0
20
اذکار کا ثواب ملا مجھ کو
چین و سکوں کا باب ملا مجھ کو
اپنی خلوص کا صلہ ہے پایا
"جب بھی ملا جواب ملا مجھ کو"
اب ختم انتظار ہے طالب کا
مطلوبہ سا نصاب ملا مجھ کو

0
18
نبی ﷺ کے پیارے نواسے حسین زندہ ہیں
ہر ایک دل کے چہیتے حسین زندہ ہیں
جو کربلا میں جوانمردی سے رہیں لڑتے
یزیدی ڈر گئے جن سے ، حسین زندہ ہیں
شہید زندہ ہیں قرآن کی گواہی ہے
رواں رواں بھی پکارے حسین زندہ ہیں

0
22
لو مل گئی سند خوشنودی شتاب لئے
کہ آئے ہاتھ میں اپنے حسیں گلاب لئے
گھٹائیں جم کے فلک پر ہیں چھائیں خوب مگر
"گزر رہی ہے یوں ہی حسرت سحاب لئے"
مہ تاباں کی طرح دل فریب ہو منظر
ہو نازنین کھڑی سامنے حجاب لئے

0
16
ہر حال ہم کو جینا ہے یاں بندگی کے ساتھ
ورنہ بے موت مرنا ہے شرمندگی کے ساتھ
دل کے قریب تھے جو وہی آج ہیں خفا
"ملنے کو ہم سے آئے مگر بے دلی کے ساتھ"
جو شکر کرتے ہیں وہ عنایت کو پاتے ہیں
جیسے یہ شاکرین نبھاتے کمی کے ساتھ

0
12
بے لوث محبت کو سدا یاد کریں گے
فرقت ہو یا قربت وہ وفا یاد کریں گے
مورت ہے شرافت کی، نفاست کی سراپا
شرمائے حیا خود، وہ حیا یاد کریں گے
ملت کے لئے وقف کیا جس نے دل و جاں
پیغام انہوں نے ہی دیا یاد کریں گے

0
13
رائگاں جا سکے معصوم کی فریاد نہیں
حامی ہو جس کا خدا ہوتا وہ برباد نہیں
مقصد زیست کا اتمام ادھورا ہے کہاں
"اب کسی بات کا طالب دل ناشاد نہیں"
موت سے خوف نہیں لاگے، مگر ہے حسرت
اخروی زندگی کا لے لیا کچھ زاد نہیں

0
16
پا سکیں پیار کا ہے کوئی دہانہ ہی سہی
لب پہ ہے عید مبارک کا ترانہ ہی سہی
ہجر کی بے کسی نے حال برا کر ہی دیا
"عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی"
منتظر غرق تصور میں ہو محبوب کے ہم
پھر چھڑے عشق و محبت کا فسانہ ہی سہی

0
20
ہو تکیہ گر تلاوت اور نفلوں پر
نہ آ سکتے ہیں فاقے پھر مکینوں پر
غبار دل کے باعث ہو گئے بے حس
"شکن پڑتی نہیں ان کی جبینوں پر"
ہنر اپنا عیاں ہو جائے گر سب پر
تبھی خم کھاسکے دنیا یہ قدموں پر

0
19
ہر برائی میں رہتی زحمت ہے
پڑتی اک دن چکانی قیمت ہے
کیوں تذبذب تمہارے ہے دل میں
"ہے محبت تو بس محبت ہے"
جس شئہ نے فریب میں ڈالا
فانی دنیا کی زيب و زینت ہے

0
17
فرض تب تک ادا نہیں ہوتا
جب تلک خود فنا نہیں ہوتا
عشق میں ہجر، زخم، رنج و الم
"یوں تو ہونے کو کیا نہیں ہوتا"
غیر کا غم سمجھ نہیں پاتا
دل میں گر دکھ سجا نہیں ہوتا

0
26
یا خدا مانگتا بیٹھا ہے
کر عطا مانگتا بیٹھا ہے
با وضو، با ادب، با طلب
"وہ دعا مانگتا بیٹھا ہے"
اس کو صحت دے اے میرے رب
جو شفا مانگتا بیٹھا ہے

0
20
تمام شکوے بھلانے کو عید آئی ہے
وفا کا عہد نبھانے کو عید آئی ہے
خزاں کی رت یہ بدلنے کو ہو چلی جیسے
"چمن دلوں کا کھلانے کو عید آئی ہے"
سیاہ شب کی یہ تاریکیاں مٹیں گی اب
چراغ عشق جلانے کو عید آئی ہے

0
16
جواں سالی کا گزرا وہ زمانہ یاد آتا ہے
محبت کا وہ رومانی فسانہ یاد آتا ہے
ادب کے جزبے دل میں تب ابھرتے ہی چلے جائیں
رویہ جب بڑوں کا مشفقانہ یاد آتا ہے
خدا کی معرفت کامل جو حاصل کرتے ہیں بندے
مقولہ ان کا ہی بس عارفانہ یاد آتا ہے

0
20
نظریں ہوں با حجاب، مت دیکھا کر
نکلے ہیں بے نقاب مت دیکھا کر
کیوں خالی ہاتھ بھی سکندر کے تھے
"جگ فانی کے سراب مت دیکھا کر"
ناممکن کچھ نہیں دہر میں لیکن
لا حاصل جو ہیں خواب مت دیکھا کر

0
14
ستم ہے دکھ بھی ہمارے سمجھ نہیں پائے
عبث ہے شکوہ، بے چارے سمجھ نہیں پائے
سکون قلب خدا کو پکارنے میں ہے
اسے یہ مال کے مارے سمجھ نہیں پائے
ملال ہے بے رخی کے برتنے پر ان کے
نظر سے نکلے اشارے سمجھ نہیں پائے

0
14
بنا کاوش کے کچھ بدلا نہ جائے
گلستاں ہو حسیں سوچا نہ جائے
نگاہوں نے دی ہے الفت کی دستک
"محبت کی وہ آہٹ پا نہ جائے"
برتنا ہے رفاقت پہلے گہری
کسی کو سرسری پرکھا نہ جائے

0
20
ہارنا میداں میں ہرگز گوارا بھی نہیں
جیت کی خاطر پہ جزبہ ابھارا بھی نہیں
داستاں ایماں فروشی کی رکھ تو سامنے
باز آتے تخت و کرسی سے وزرا بھی نہیں
جس نے اخلاقی فریضہ کو ہی سمجھا نہ ہو
"وہ ہمارا بھی نہیں وہ تمہارا بھی نہیں"

0
18
بے رخی بے انتہا دیکھتے ہیں
بے وجہ ان کو خفا دیکھتے ہیں
جزبے پنپنے لگیں پیار کے تو
لطف و کرم جابجا دیکھتے ہیں
باہمی رنجش ابھر جائے اگر
دل میں خلش، پھر سدا دیکھتے ہیں

0
17
آنکھوں سے صادر یہ شرارت ہو گئی
آپ سے کیسی یہ محبت ہو گئی
ہلکی سی جنبش نے اثر دل پہ کیا
دیکھتے ہی دیکھتے الفت ہو گئی
شکریہ اقرارِ وفا کرتے چلے
کتنی ہمیں قلبی مسرت ہو گئی

34
مدینہ جائیں گے، دل کی مرادیں پائیں گے
جبیں کو خم کئے سجدے میں گڑ گڑائیں گے
وہ سبز جالیوں پر نظریں ہم جمائیں گے
درود، ذکرِ نبی لب پہ بھی سجائیں گے
ہو روضہؐ پر کبھی اپنی جو حاضری پھر کیا
جو تشنگی بسی دل میں ہے سب مٹائیں گے

27
متین، نرم یہ لہجہ دکھائی دیتا ہے
وفا شعار یہ شیوہ دکھائی دیتا ہے
شبیہ کش کی ہو کاری گری عیاں اس میں
"یہ آئینے میں جو چہرہ دکھائی دیتا ہے"
رہے فنا وہ سدا ناتواں کی خدمت میں
غریبوں کا جو مسیحا دکھائی دیتا ہے

27
جو انقلاب کبھی رونما نہیں کرتے
وہ کارِ خیر کی ہی ابتدا نہیں کرتے
خسارہ میں گِھرے اکثر وہ لوگ رہتے ہیں
بڑوں کی مان کے جو بھی چلا نہیں کرتے
ادب، تمیز ضروری ہے زیست میں اپنے
"یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے"

26
صنم بے وفا وہ بنے بیٹھے ہیں
مجسم خطا وہ بنے بیٹھے ہیں
بظاہر نظر آتے ہیں کچھ مگر
"زمیں پر خدا وہ بنے بیٹھے ہیں"
نہ اقرار کرتے نہ انکار بھی
سراپا حیا وہ بنے بیٹھے ہیں

0
26
آزاد پسندوں کا جہاں اور ہی ہے
مخمور ہو تو کُوئے مغاں اور ہی ہے
نرگس کہیں چمپا کہیں گل لالہ کھِلے
گلشن کی فضا، حُسن و سماں اور ہی ہے
حق تلفی پنپنے کبھی دینگے نہیں گر
انصاف ہو قائم تو اماں اور ہی ہے

0
30
جنم دن پر ہم کو نذرانہ محبت کا ملا
کچھ تو جاناں سے ہمیں انعام فرحت کا ملا
خواہشِ دیرینہ اک دن اپنی پوری ہو سکی
شکر ہے پیغام آخر آج الفت کا ملا
انتظارِ یار میں بےچینی کا اظہار تھا
پھر سلامِ عشق جُھک جُھک کر عقیدت کا ملا

0
46
درد ملت کا ہمیں رکھنا سدا ہے محترم
عافِیت اندیشی میں رہنا فنا ہے محترم
انقلابی کاموں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیں ضرور
نوجواں بھی ساتھ ہوں گر، تو مزا ہے محترم
امتحاں سے خوف کھانا بزدلی کا ہے نشاں
مشکلیں رہتی ہیں مہماں، کچھ پتا ہے محترم

0
27
اجڑے وہ آشیاں تک گیا ہوں
بیتی اک داستاں تک گیا ہوں
دل پہ جو رکھ کے پتھر کبھی میں
"پوچھتے ہو کہاں تک گیا ہوں"
شاملِ غم بنوں سوچ کر ہی
چھوڑنے کارواں تک گیا ہوں

28
گلستاں میں یہ عمدہ پھول کھلے
پُر حسیں نور دیدہ پھول کھلے
سحر انگیز رت بھی چھائی ہے
گریہ شبنم نمیدہ پھول کھلے
کیا مہک کن فضا گلوں سے ہوئی
کیسے دلکش غنودہ پھول کھلے

28
گر ملے سب سے با ادب کوئی
تب کہیں اعلٰی ہے نسب کوئی
ٹوکنا تھا درستگی کے لئے
"مجھ سے روٹھا ہے بے سبب کوئی"
زیست میں ہو سرور ایسا بھی
چھڑ گیا ساز پر طرب کوئی

0
22
وعدہ کب یار نے نبھایا ہے
ہم کو ہر بار ہی رلایا ہے
پنچھی پہچانتے ہیں خطرہ کو
"جال صیاد نے بچھایا ہے"
اُن سے اظہارِ عشق ہو تو گیا
شور پھر کیوں بے جا مچایا ہے

0
41
تصویر میں جیسے ترا چہرہ پایا
کچھ ہو بہو نزدیک سے ویسا پایا
بے آبروُ ہو کے جو پلٹ کے آئے
کوچہ پہ ترے سخت سا پہرہ پایا
ہر مات نے ہمت ہے بندھائی میری
امید نئی جاگی ہے جو رسوا پایا

0
20
نو رسیدہ شگوفے کِھلنے لگے
کُل چمن خوشبُو سے مہکنے لگے
نقشِ پا کے سراغ مٹنے لگے
"کارواں راستے بدلنے لگے"
باخبر حال سے بشر ہو گر
اُس کے دل کا جہاں چمکنے لگے

0
35
کاش امت کی جو بگڑی کو بناتے جاتے
کام دعوت کا بھی سینہ سے لگاتے جاتے
فکر کے حلقے محلوں میں سجاتے جاتے
گشت میں کوچے گلی خود کو تھکاتے جاتے
ديں کے ماحول کی برکت سے ہوا بدلاؤ ہے
"دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے"

0
30
مبارک جو آمد تھی سرکارؐ کی
خبر لے کے آئی تھی انوار کی
بلایا جو معراج میں رب نے تھا
عیاں ہو گئی شان ابرارؐ کی
مدینہ سے دوری ہے بے حد گراں
"گزر جائے رت جیسے گلزار کی"

0
29
آس اب کچھ نہیں تجھ کو پانے کے بعد
رنج بھی مٹ گئے تیرے آنے کے بعد
اک شرارہ جو بن جائے شعلہ کبھی
جزبوں میں بہتری ہو، جگانے کے بعد
کارنامہ غمِ ہجر نے کر دیا
"ایک مدت ہوئی مسکرانے کے بعد"

0
32
درس الفت کے جو ڈھونڈے تو فسانے سے ملے
لذتِ عشق مگر غم کو اٹھانے سے ملے
راہیں پُر خار ہیں، دامن کو بچائیں کیسے
"داغ دنیا نے دیے، زخم زمانے سے ملے"
جزبوں میں جوش ہے، پر جوڑ نہیں فکروں میں
سوچ تو ہے نئی، انداز پرانے سے ملے

0
33
مقصد بھی نہیں چھوڑا، منشا بھی نہیں بدلا
اوروں کی بھلائی کا جزبہ بھی نہیں بدلا
طوفان و حوادث میں بھی سینہ سپر تھے وہ
"کشتی بھی نہیں بدلی، دریا بھی نہیں بدلا"
باتیں ہیں تکبر والی، چالیں اکڑ والی
حالات کے مارے ہیں، لہجہ بھی نہیں بدلا

0
31
ہچکولے کشتی کھا رہی اپنی بھنور میں ہے
بچنا بھی اپنا اس کے ہی اب مقتدر میں ہے
غمخواری ہے دلِ بے کراں میں بھری ہوئی
"سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے"
مہکی فضائیں، دلکش و رنگیں شگوفہ نو
پُر کیف، پُر بہار سماں وہ نظر میں ہے

0
34
سوئے ہُوئے جزبات کو بیدار کرو تو
الفت کا صنم سے کبھی اظہار کرو تو
کم ظرف کبھی سوچ کے بولا نہیں کرتے
دانائی، فراست بھری گفتار کرو تو
سیلِ انا ہر وقت تمہیں زیب کہاں دے
ملت کی بقا کے لئے ایثار کرو تو

0
32
رہِ طلب میں کبھی وہ مقام آ جائے
اتھاہ گہری لگن اپنی کام آ جائے
مریضِ عشق کو کچھ تو، پیام آ جائے
"خدا کرے کہ تمہارا سلام آ جائے"
فضائیں منچلی، آنکھیں بھی ہوں خمار زدہ
ہوائیں ٹھنڈی چلیں، اور شام آ جائے

0
32
گل کو ملی پاکیزگی تھی شبنم سے
مہکی تھی فضا ساری، حسیں موسم سے
گلشن سے کہا جھڑتے ہی گل نے ایسے
"اس بزم کی رونق تھی ہمارے دم سے"
تالاب کے پانی سے گماں مشکل ہے
موجوں کی روانی کو جانے قلزم سے

0
31
عالم پہ نور چھا گیا بعثت سے آپؐ کی
خالق سے رشتہ جڑ گیا رحمت سے آپؐ کی
توحید کی پکار نے یکسر بدل دیا
گمراہی ختم ہوئی عنایت سے آپؐ کی
قرآں کا گر ہے سامنے اسوہ ہمارے پھر
"منزل ملی ہے ہم کو تو سیرت سے آپؐ کی"

29
چہرہ حسیں پلٹ کے دِکھایا نہیں کبھی
"ایسا گیا کہ لوٹ کے آیا نہیں کبھی"
ہرجائی پن کی چالیں ہُوئیں آشکار جب
دوبارہ نظریں اپنی ملایا نہیں کبھی
تخریب کاری کی جڑیں مطلق مٹانے سے
ناپاک سازشوں کو رچایا نہیں کبھی

26
ہے جو اپنے قرار کا دشمن
ہے وہی اِس بہار کا دشمن
قابلِ اعتماد کوئی نہیں
"یار ہوتا ہے یار کا دشمن"
ہمنشیں کو ہی وہ سمجھتے ہیں
اجڑے باغ و دیار کا دشمن

26
کردار اب کسی کے ہیں ملتے کھرے کہاں
سارے ہی لوگ رہتے مگر ہیں برے کہاں
دنیا یہ مفت میں کسی کو پالتی نہیں
مزدوری کے بنا ملیں گے ٹھیکرے کہاں
بھائی بہن، نہ ماموں، نہ تایا، نہ پھوپا بھی
ماں باپ پُوچھتے رہیں گے، دوسرے کہا‌ں

27
لب پہ ہر وقت مولیٰ کی ثنا ہے
لطف مالک کا مجھ پہ جو ہوا ہے
کہکشاں اور تاروں کی یہ چمک
کیا فلک، کیا قمر یہ سب مہا ہے
ہے سزاوار تجھ کو کاری گری
کیا زمیں، کیا خلیج، کیا خلا ہے

0
25
دینداری کے سارے دعوے ہیں
پارسائی کے بس دکھاوے ہیں
شائبہ مکْر کا کہیں نہ ملے
"یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں"
ظاہری رنگ زہد و تقویٰ کا
دیکھنے والے محض اُلجھے ہیں

0
29
خاص رب کی عطا آج کی رات ہے
جس پہ ہے دل فدا آج کی رات ہے
بن گئے ہمسفر جبرَئل آپؐ کے
عرش بھی سج گیا آج کی رات ہے
تاجدارِ مدینہؐ ہوئے روبرو
ہم کلامِ خدا، آج کی رات ہے

0
41
پرانی سوچ کو گر تم بدل سکو تو چلو
جدید نسل کے کچھ سنگ مل سکو تو چلو
وجود کامنی، نازک مہین چہرہ ہے
"سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو"
ڈگر کٹھن ہے مقابل پڑی ہوئی اپنے
وفا کے کھیل میں دے اپنا دل سکو تو چلو

0
51
ناراض خدا ہوتا ہے دل کو دُکھانے سے
خوش ہوتا ہے وہ بچھڑے بندوں کو ملانے سے
تشنہ لبی کیسے مٹ جائے گی ہماری اب
"ویران ہوئی دنیا اک آپ کے جانے سے"
کرنا ہے تعاون اب حالات کے ماروں کو
دہلے ہیں ممالک جو بھی زلزلے آنے سے

0
31
شوق گر ہم کو ہوگا پڑھنے کا
راستہ مل ہی جائے پانے کا
سوختہ بخت کی پکار کو سن
"آسرا چھن گیا ہے جینے کا"
کیوں نہ آواز ہم اُٹھائیں اب
کیا نتیجہ ملا ہے سہنے کا

0
19
ملت کے نوجواں کو جگاتے تو بات تھی
اخلاقی ہم فریضہ نبھاتے تو بات تھی
سردار سے ہی کیسے بغاوت یہ ہوگئی
گر ذاتی اختلاف مٹاتے تو بات تھی
سیرابی دل کے اجڑے چمن کی نہ ہو سکی
"وہ تشنگئی شوق بجھاتے تو بات تھی"

0
30
محبی چھوڑ کر جانے لگے ہیں
ہمارا من ہی تڑپانے لگے ہیں
رفیقِ بزم ہی جب روٹھ جائیں
"دلوں کے پھول مرجھانے لگے ہیں"
ہمارے درمیاں امجد تھے سب میں
وہ اب باغِ عدن چھانے لگے ہیں

0
31
سب کو تُو خدایا رکھنا اپنی پناہوں میں
گھیرے میں نہیں لینا، آفت یا عذابوں میں
عاصی ہیں، مگر تیرے محبوبؐ کی امت ہے
سرکارؐ کے صدقہ رکھنا ہم کو تُو نازوں میں
لرزہ دیا تھا جس نے، واں زلزلے ہیں برپا
ترکی کے مسلماں کو رکھنا تُو سہاروں میں

0
29
حسیں محفل کسی دن سجاتے ہیں
غزل اپنی تمہیں پھر سناتے ہیں
بلا کر تو کبھی دیکھنا ہم کو
کِیا وعدہ نبھا کے دِکھاتے ہیں
محبت ہو چلی رسمی ہے جب سے
"لگانے کو سبھی دل لگاتے ہیں"

0
39
چھا گیا تھا زمانہ جو رسالت کا
دور آتا گیا ہر سُو صداقت کا
اک اُبی نام کا کٹر منافق تھا
"جانے دیتا نہ تھا موقع شرارت کا"
کیا مہاجرؓ تھے کیا انصاریؓ سب تھے ایک
اخوہ قائم ہوا باہم اعانت کا

0
41
بے کسی کا کبھی اظہار نہ ہونے پائے
حالِ مجبوری میں اوتار نہ ہونے پائے
جاں سے بڑھکر بھی وفاداری نبھاتے جائیں
"یار کو رغبتِ اغیار نہ ہونے پائے"
یوم و شب ایک ہی دُھن رکھنے سے منزل ملے گی
فکر جو پالی ہے بیکار نہ ہونے پائے

0
36
جھرنے ندی سے تو کبھی ساگر نہیں ملتا
سب بحروں میں کاہل سا سمندر نہیں ملتا
تقدیر کی گتھی کوئی سلجھا نہیں پایا
"دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا"
فطرت رہی ہے حضرتِ انساں کی ہمیشہ
تکرار ہو گر کوئی تفکر نہیں ملتا

0
23
ذرا بن ٹھن کے جو دلبر بھی آئے
حسیں زہرہ جبیں پیکر بھی آئے
ہوائے دید بن کے منتظر ہیں
"کوئی لمحہ دھنک بن کر بھی آئے"
جگر کو تھام کر بیٹھے ہیں سارے
جری، شعلہ بیاں، لیڈر بھی آئے

0
38
بہتے ہیں سدا دریا
رب کی ہے، عطا دریا
اُس نے برف پگھلایا
کوہ سے روا، دریا
موجوں میں ہو طغیانی
دیتے ہیں، صدا دریا

0
34
چہرہ خوش رنگ بنا کے رکھا ہے
زخم سینہ میں چُھپا کے رکھا ہے
گر عدو جان لے تو خیر ہی ہے
"جو کفن ہم نے سلا کے رکھا ہے"
ایک مدت سے رہیں جن کے قریب
اُس نے ہی آج بُھلا کے رکھا ہے

0
36
رہیں ہشیار بن کے ہم اگر چکما نہیں ملتا
نمایاں کارناموں کے بجز چُوما نہیں ملتا
بہ قدرِ ظرف ہی قیمت لگائی جاتی ہے اکثر
کشیدہ کاری ہو بدحال تو دمڑا نہیں ملتا
رفیع الشان کی پہچان اہلِ قدر ہی جانے
نظر کو بھا سکے نایاب وہ ہیرا نہیں ملتا

0
40
کبیرہ کچھ گناہوں کے سبب خَبال ہو گیا
عذاب کا سَروں پہ بے جا کچھ وَبال ہو گیا
غروب سلطنت پہ شمس جس کی ہو نہیں سکا
ابھرتی قومیت کا اس کی بھی زوال ہو گیا
رئیس بننے کے فراق میں حدیں پھلانگ دیں
کہ سود خوری کا بھی پیشہ اب حلال ہو گیا

0
28
دامن کو ٹھیک سے پسارو
رب سے فریاد کو سنوارو
جنت کی آرزو اگر ہے
اپنے اعمال کو سدھارو
لب پر ہو عاجزی تمہارے
"تم اہلِ دل کو جب پکارو"

0
32
عشقِ صادق کبھی فنا نہ ہوا
حق تو جاں دے کے بھی ادا نہ ہوا
لعن کے باوجود اف نہ کیا
یار ہم سے کبھی خفا نہ ہوا
غم کی آہٹ نے گھیرے میں لے لیا
"آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا"

0
34
کیوں ڈوبتے ہُوئے کو بچایا نہیں گیا
ہمدردی کے سبق کو نبھایا نہیں گیا
محوِ تماشہ بننے کی لت رہتی ہے بری
دکھ کی گھڑی میں دکھ بھی جتایا نہیں گیا
مطلب پرستی بڑھ چکی اب تو بے انتہا
"تشنہ لبی میں جام پلایا نہیں گیا"

0
30
شاید یہ جان بوجھ کے پہرے بدل دیئے
الزام کو مٹانے یہ دعوے بدل دیئے
موضوع زیرِ بحث تھا کچھ اور ہی مگر
"کس نے بساطِ بحث کے مہرے بدل دیئے"
آگاہ چالبازی سے جب لوگ ہو گئے
مکر و فریب کے لئے حیلے بدل ديئے

0
31
کب سے رہ پر مری پلکوں کو بچھا رکھا ہے
حسرتِ دید میں سینہ کو جلا رکھا ہے
ہوش اڑنے لگے ہیں تب سے مرے ہوش ربا
"جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے"
باخبر کیوں نہ صنم چاہنے والا بھی ہو
کس اداسی کے سبب حال گِرا رکھا ہے

0
30
جو آج تک نہ بتایا وہ اب بتا دوں گا
حیا کے پردے بھی ممکن ہو گر ہٹا دوں گا
فریب سے مری جاں احتیاط ہو ورنہ
"میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا"
خطا نہ ہو سکا کوئی نشانہ ہے اپنا
شکار پنجہ میں اپنے مگر دبا دوں گا

0
37
کب سے رہ پر مری پلکوں کو بچھا رکھا ہے
حسرتِ دید میں سینہ کو جلا رکھا ہے
ہوش اڑنے لگے ہیں تب سے مرے ہوش ربا
"جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے"
باخبر کیوں نہ صنم چاہنے والا بھی ہو
کس اداسی کے سبب حال گِرا رکھا ہے

0
38
کچھ نہیں ہوتا یہاں دینار سے
پائے گا سب رب کے ہی تذکار سے
گول ہے دنیا کا اس جغرافیہ
"بن گیا اک دائرہ پرکار سے"
ایک خالق کی محبت دل میں ہو
پاک رکھیو اپنے من اغیار سے

33
عجیب مخمصہ میں ہے کہ جیتنا بھی نہیں
پسند ان کو مگر آئے ہارنا بھی نہیں
قریب رہنے سے ڈسنے لگی یہ قربتیں ہیں
"اسی کو چاہنا اور اس سے بولنا بھی نہیں"
وفا کے کھیل میں حد درجہ غرق کوئی ہو پھر
سوائے عشق و محبت کے سوچنا بھی نہیں

20
نہ جانے عرصہ دراز سے یار تم بہت ہی خفا رہے ہو
بتاؤ کیوں ایسے سرگُزِشت و فسانہ اپنا سنا رہے ہو
زباں پہ ہیں بول میٹھے، کرتوت بر مخالف جتا رہے ہو
ستمگروں سے زیادہ، ہمدرد رہ کے بھی تم ستا رہے ہو
مثال قائم ہو سکتی ہے سورما کے جیسی پہ شرط ہے کچھ
کٹھن گھڑی رہتے وعدہ احسن طریقے سے گر نبھا رہے ہو

21
فرحت، نشاط ساتھ لئے آئی ہے گھڑی
مل کے چلو مناتے ہیں ہم دیس میں خوشی
کر دے منادی ہر گلی، ہر کُوچہ، ہر مکاں
"آ تُو بھی آ کہ آگئی چھبیس جنوری"
ماحول نغموں، گیتوں سے پُرکیف ہے بنا
جلسے جلوس، نعروں کی آواز ہو چلی

0
40
کیوں خوف زدہ ہو تم حق بات بتانے سے
ڈرتے رہیں گے کب تک آواز اٹھانے سے
سچائی عیاں روزِ روشن کی طرح ہے پر
"تم باز نہیں آتے الزام لگانے سے"
بے غیرتی کے باعث رسوا ہو چلے ہیں ہم
لوٹے گی اصالت پھر غیرت کو جگانے سے

0
51
عمل سے دور رہنا بے مزہ ہے
اُسے عقبٰی میں پانا پھر سزا ہے
مُریدوں پر تصرف کا ہے منشا
"مری محفل مرا خلوت کدہ ہے"
سعی سے نفس کی اصلاح ہوگی
ریاضت پر مراتب کی بقا ہے

0
33
بزم کو یار نے جِلا دی ہے
دردِ دل کی بڑی دوا دی ہے
تجربہ ہم کو درس دیتا ہے
"عشق تاریکیوں کا عادی ہے"
چرچہ ہر سمت اُس کا کیوں نہ چلے
زندگی قوم پر مٹا دی ہے

30
کبھی سامنے کچھ بتائے گی دنیا
پسِ پشت گُل کچھ کھلائے گی دنیا
کرے منہ پہ تعریف، پیچھے برائی
"یہ رنگ اپنا اک دن دکھائے گی دنیا"
سکوں دل بھی پائے، ادا تعزیت بھی
بظاہر تو ماتم رچائے گی دنیا

0
39
چمن میں ہم تبھی فصلِ بہار دیکھیں گے
کہ باغباں کو ہمہ وقت وار دیکھیں گے
جی جان سے کرے گلشن کی وہ نگہبانی
وگرنہ سارے گلستاں میں خار دیکھیں گے
وطن سے دور جو رہتے ہیں، سوچتے ہوں گے
پلٹ کے اپنے وطن کا دیار دیکھیں گے

0
53
خوشیوں کی گھڑی پانے سے سرشار ہوئے ہیں
موسم کے بدل جانے سے مہکار ہوئے ہیں
اک منزِلِ نو کی ہمیں خواہش ہو چلی ہے
"ہم رختِ سفر باندھ کے تیار ہوئے ہیں"
آمد ہی نئے سال کی پُر کیف بڑی ہے
راہوں میں دِئے جلنے سے انوار ہوئے ہیں

0
30
دینی علوم کے ہیں جو ساگر بنے ہوئے
اخلاق کے بھی ہیں وہی پیکر بنے ہوئے
ملت کی پاسداری میں پائی ہو فوقیت
دینِ مبین کے ہیں مفکر بنے ہوئے
افسوس! انقلاب کی تحریک مر چکی
"مدت ہوئی قفس کو مرا گھر بنے ہوئے"

0
35
خدا کے پیمبرؐ سدا گھل رہے تھے
وہؐ عقبہ میں تبلیغ کرتے جٹے تھے
حفاظت کی بیعت میں بازی لگائی
سعادت کو انصارؓ ہی پا چکے تھے
شروعات ہجرت کی خودؐ سے کرائی
ابو بکرؓ ہمراہی انؐ کے بنے تھے

0
40
سعی کریں گے اگر مل کے آشتی کے لئے
مثال ہو سکے قائم یہ پھر صدی کے لئے
ترس رہی ہیں نگاہیں بھی دید کی خاطر
"ہمارے پاس چلے آؤ دو گھڑی کے لئے"
اداس تم کبھی ہرگز صنم نہ ہو جانا
بہار لوٹے گی گلشن میں دلبری کے لئے

0
34
ہاتھوں سے جب کمان اڑا لے گئی ہوا
تیروں کے تب نشان اڑا لے گئی ہوا
گلشن میں خوشگواری رہی عارضی بہت
"پھولوں کی داستان اڑا لے گئی ہوا"
کامل یقیں ہو ایسے میں تو ناخدا پہ بس
کشتی کے بادبان اڑا لے گئی ہوا

0
55
جو زندگی میں رکھتے ہیں کوئی حسی نہیں
تقدیر کے سنورنے میں ان کی چلی نہیں
موقع گنوانے والے نصیحت کو جان لیں
"گویا ابھی نہیں کا ہے مطلب کبھی نہیں"
خالی رہے تھے ہاتھ سکندر کے آخرش
فانی جہاں میں بات کسی کی بنی نہیں

0
45
جرأت کے سامنے یہ طوفان کچھ نہیں
صبر و شکیب ہو تو عُدوان کچھ نہیں
جکڑے ہوں دام گستر کے جب شکنجہ میں
شیرہ ءِ جاں کے درد و ضربان کچھ نہیں
جزباتِ عشق میں بھی مغلوب ہونے سے
جرمِ وفا میں حائل زندان کچھ نہیں

0
26
حرا پر ملا مژدہ آخر الزماںؐ کو
بشارت ہوئی فخرِ کون و مکاںؐ کو
بنیں ہمسفر جبرَئیلِؑ امیں تھے
"تھی حسرت قدم بوسی کی آسماں کو"
ستم کیش سے نرم گفتاری رکھنا
اجاگر نبی کی ہے سیرت جہاں کو

0
39
ملت کے نوجوانوں! محکم وقار تم سے
ایثارِ نفس رکھیو، دار و مدار تم سے
ہیں والدین کے اپنے نور چشم سارے
"گلشنِ بہار تم سے دل کا قرار تم سے"
درکار ہے اُولو العزمی، مستقل مزاجی
عصمت کی پاسداری ہے برقرار تم سے

0
34
انمول موتیوں کو پرویا کریں گے ہم
اقبال مند یا اسے جسیا کریں گے ہم
پروان چڑھنے والی نئی نسل کے لئے
شعبۂِ دینیات کا اِحْیا کریں گے ہم
بر گشتہ اپنے ہی ملے اکثر یہاں ہمیں
"اب چاہتوں کے بیج نہ بویا کریں گے ہم"

0
49
تعلیم یافتہ ہی بیکار آج کل ہے
فکرِ معاش سے وہ بیزار آج کل ہے
پہچان اپنوں غیروں کی ہوگئی ہے مشکل
بغض و عناد سے دل افگار آج کل ہے
تہذیب کے سبق سب ہم نے سکھائے ان کو
کیوں ان کا نامہذب اظہار آج کل ہے

0
37
جِلا بخشی آقاؐ نے کامل مکاں کو
عطا کر دیں سوغاتیں بے خانماں کو
زمیں تا فلک غلبَۂ جلوہ سازی
"تھی حسرت قدم بوسی کی آسماں کو"
بنا مِیر کے قافلہ تھا ادھورا
شہِ انبیاؐ مل گئے کارواں کو

30
نام اس چیز کا محبت ہے
قربتِ یار میں ہی لذت ہے
اپنے دمساز کی ہیں یادیں بس
"خانۂ دل سرا کی صورت ہے"
من کے چلمن میں ایک ہلچل ہے
ہو چلی ہم قدم سے الفت ہے

0
35
ارادہ کِیا میلہ میں اک دن تھا جانے کا
یکایک ہوا غلبہ مگر نیند چھانے کا
بتوں پر چڑھاؤں سے رکھی آپؐ نے دوری
"ذبیحہ نہ کھایا تھا کبھی آستانے کا"
بلا ناغہ ہر رمضان میں شیوہ تھا اُنؐ کا
حرا میں عبادت کر کے من کو لبھانے کا

0
23
نظامِ عقائد بدلا کیسے زمانے کا
ہے حُسنِ اَثر نورِ ہُدیٰؐ جگمگانے کا
خرافات سے رب نے بچایا کرم کر کے
"ذبیحہ نہ کھایا تھا کبھی آستانے کا"
بے بس سہمے سب کفار تھے فتحِ مکہ پر
عجب تر سماں تھا آپؐ کے لوٹ آنے کا

0
38
مسکراہٹ چہرہ پر جب سے عیاں ہونے لگی
دل کدہ کی کیفیت گوہر فشاں ہونے لگی
جزبَۂ الفت میں معتوبِ زماں ہو جائیں گر
"کیا ہوا ہم سے جو دنیا بدگماں ہونے لگی"
گُلشَنِ نا آفریدہ کا تصور خوشنما
الجھنوں کے گام پر آہ و فغاں ہونے لگی

24
خوب اپنے عمل سنوارا کر
قبر کے واسطے اجالا کر
جب غمِ آگہی عیاں ہے ہوا
"دشت و صحرا میں اب پکارا کر"
چارہ گر ہی اگر ستم گر ہو
زخم کا خود ہی کچھ مداوا کر

0
43
بڑی زحمتیں ہیں اٹھائیں پھر بھی زباں پہ شکوہ نہیں رہا
کہیں لعن، طنز و مزاح، معترضہ بھی فقرہ نہیں رہا
بسی آرزو کئی عرصہ سے تھی کہ مطمئن ہو مگر کہاں
جسے جانے دیدنی ہم تھے اس میں ابھی وہ جلوہ نہیں رہا
بے رخی سے بچتے رہیں تو ساحِلِ آشنا ہو سکیں گے پر
یہ خیال خطرہ کی ہے نشانی کہ ہم کو خطرہ نہیں رہا

0
49
ہر کس و ناکس کو رہتا قریہ آبائی پسند
ہے جِبلّی طور پر انسان صوبائی پسند
ہو تخیل میں خلل ہرگز نہ پیدا اس لئے
"ہے دلِ شاعر کو لیکن کنجِ تنہائی پسند"
سوچنے کا طرز یا انداز سب کا ہے جدا
خامشی کچھ چاہیں تو کچھ رہتے شہنائی پسند

0
36
افکار کی بلندی اقبالؔ نے سکھائی
سنجیدگی و متانت گفتار میں نبھائی
شعروں سے نوجوانوں میں انقلاب آیا
معیارِ فکر سے ہلچل دل میں ہے مچائی

0
39
بد روی چھوڑنے کو لوگ بدل کہتے ہیں
خدمتِ خلق کو سب نیک عمل کہتے ہیں
عشقِ صادق کو فراموش نہ کر پائیں گے
"دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں"

0
26
بھول جانا نہیں ہے ذلت کو
مات دینا ہمیں ہے نفرت کو
پیار کے بول جب زباں پر ہوں
تب کریں گے قبول دعوت کو
ہوں فدا سارے جن کے رتبہ پر
داد ہو پیش ایسی رفعت کو

0
44
پیامِ محبت نہ آیا بلم کا
ہوا دل ہے آشفتہ خاطر صنم کا
نگاہِ تغافل کا ہے رقصِ پیہم
"تسلسل نہ ٹوٹا تمہارے ستم کا"
تفکر میں تعمیرِ نو جب ہو شامل
اثر انقلابی رہے پھر قلم کا

0
28
سخت احتیاج میں بھی سہارا نہیں ملا
اپنوں کی بھیڑ رہتے ہمارا نہیں ملا
جس کو نگاہوں سے کبھی تھا ہم نے کھو دیا
"راہِ وفا میں پھر وہ دوبارہ نہیں ملا"
پتوں پہ اوس ہے نہ گلوں میں ہے تازگی
گلشن میں روح بخش نظارہ نہیں ملا

0
33
کرتا ہے آجکل کُوئی سچی وفا کدھر
جانے بھی حالِ غیر یہاں ہم نوا کدھر
معمورَۂ جہاں کے نشاں بھول جانے سے
"یہ بھی خبر نہیں کہ گیا قافلہ کدھر"
شومِیٔ بخت دیکھئے کیا حال کر گئی
پلکیں بچھی ہیں راہوں پہ ہو دلربا کدھر

0
55
دیکھا نہ کبھی ہوگا جو دل آور ایسا
رکھتا ہو نرالا کچھ اپنا تیور ایسا
تسخیر جسے کرنا ہو کام بڑا مشکل
میداں میں ہمیشہ رہے پھر وہ برتر ایسا
ہے قابِلِ داد و دہش کرتب بازی جس کی
ہر سمت دلیری کے بکھرے گوہر ایسا

0
25
جو لڑکھڑا کے سنبھلتا کبھی رہا ہے جناب
مقامِ خاص اُسی کو ہی تو ملا ہے جناب
مزید صرفِ نظر آپ ہم سے اب نہ کریں
"ہمارے صبر کا پیمانہ بھر چکا ہے جناب"
منافرت کے قفس میں کیوں لوگ پھنستے ہیں
شکم کی آگ نے مجبور کر دیا ہے جناب

0
41
کیوں گماں ہے تجھے اس تیز ہوا سے کچھ ہو
رکھ یقیں پختہ نہ سرزد ما سوا سے کچھ ہو
کارگر کوئی نہ تدبیر ہو سکتی ہے اب
"دل میں وہ درد ہے جس کا نہ دوا سے کچھ ہو"
ابتری سے ہو چلا حال برا ہے اتنا
کچھ نہ رہبر سے بنے یا رہ نما سے کچھ ہو

0
49
علم سے شش ِجہَت اجالا ہے
جس سے خُرْد و کَلاں نِہالا ہے
بھینٹ ابعاد کے چڑھیں ہیں مگر
"تجھ کو دل سے کہاں نکالا ہے"
بد حواسی بے حال کر گئی پر
جزبَۂ شوق کو سنبھالا ہے

0
38
زرفشاں جب خیال ہو جائے
زندگی تب نہال ہو جائے
گر پشیماں ہو یار تو بنے بات
"ہجر ٹوٹے وصال ہو جائے"
میل جزبے ہمارے کھاتے ہوں
منتہائے کمال ہو جائے

0
31
یہاں جو بن کے محبِ رسولؐ جیتا ہے
وہی حبیبِؐ خدا کا بڑا چہیتا ہے
یہ مہرو مہ، یہ کواکب، فلک، زمیں سب کچھ
"نبؐی کے نام پہ سارا نظام چلتا ہے"
سدا نوازِشِ پیہم سے سرفراز کیا
کرم چہار سُو بھی آپؐ کا جھلکتا ہے

0
30
لگاؤ قلبی رہے اس عزیز ملت سے
تبھی ہو رشک درخشندہ اس کی قسمت سے
مراقبہ میں مخل شور ہو رہا ہے یہاں
"کوئی ہواؤں کو ٹوکے ذرا محبت سے"
ضمیر و روح کے فاتح کبھی نہیں مرتے
وہ مر کے زندہ ہی رہتے ہیں اپنی فکرت سے

0
23
بزمِ جہاں میں احمدِؐ مختار آ گئے
اک مژدہ جاں فزا لئے سرکارؐ آ گئے
گمراہی پھیلتی رہی سرعت سے ہر طرف
ظلمت مٹانے بن کے وہ انوار آ گئے
فخر الانبیاؐء کا جن کو لقب ملا
آقائے مدنؐی نبیوں کے سردار آ گئے

2
54
ايثارِ وفا کا گُر ہم سمجھیں جیالوں سے
آدابِ محبت کوئی سیکھے فسانوں سے
دیکھو نہ حقارت سے افلاس کے ماروں کو
"ایوان دہلتے ہیں مظلوم کی آہوں سے"
معبودِ حقیقی کرتا ان پہ کرم اپنا
تائب بنیں گے جو بندے اپنی خطاؤں سے

0
34
پُر حسیں چھایا گلستاں میں ہے منظر ہر طرف
مسکراہٹ، چہچہاہٹ کا ہے مظہر ہر طرف
بے خودی، مدہوشی کے عالم میں انساں بے خبر
بے حیائی، بے اوانی کا ہے مسکر ہر طرف
ناگہانی آفتیں ہم پر مسلط ہو گئیں
"ہے بپا دنیا میں اب تو شورِ محشر ہر طرف"

0
33
نور ہر سُو ہوا مصطفؐیٰ آگئے
بخت و مسعود بدر الدجؐیٰ آگئے
دل کی تاریکیوں کو جلا مل گئی
مرحبا ماہتاب و ضیا آ گئے
سب نے صادقؐ پکارا جنہیں پیار سے
رب کے محبوب شمس الضحؐیٰ آگئے

0
39
حضورؐ کی سبھوں کو پیروی ضروری ہے
کڑھن ہر ایک زن و مرد کی ضروری ہے
رسولِ عربؐی کے عاشق کا ہو مزاج یہی
"سکونِ قلب کو ذکرِ نبیؐ ضروری ہے"
قدم یہ اٹھتے نہیں پر اٹھائے جاتے ہیں
عقیدہ دل میں یہ رکھنا قوی ضروری ہے

0
38
جب کبھی وعدہ وفا ہوتا ہے
عشق میں تب ہی مزہ ہوتا ہے
یادِ جاناں کی ہو گردش ہر سمت
"زخمِ دل پھر سے ہرا ہوتا ہے"
حسرتیں بنتیں مقدر اپنا
یار جب ہم سے جدا ہوتا ہے

0
25
کئی اُولُوالعزم نبیوںؑ نے جتائی تھیں یہ حسرت بھی
عطا کر دے خدا امت پنہ میں ادنیٰ نسبت بھی
جہاں پر رحمتیں ہر سُو بے پایاں جس سبب چھائیں
"وہی ہے باعثِ رشد و ہدایت بھی شفاعت بھی"
محمدؐ نام آئے مالکِ کون و مکاں کے ساتھ
امام الانبیا بھی آپؐ ہیں تاجِ نبوت بھی

0
50
آسماں کو چھوتے ہیں اب دام جو بازار میں
خستہ دامن ہو چلے مہنگائی کی اس مار میں
دل لگی میں ہو اگر چین و سکوں برباد بھی
"بے قراری کا مداوا ہے خیالِ یار میں"
راس قلت ہے نہ کثرت ہے یہاں ہم کو مگر
ہو بے کیفی پر شکارِ اندک و بسیار میں

0
33
رت بدلتی ہے پر خطر نہ سمجھ
روٹھ جائے گی کچھ سحر نہ سمجھ
دیتی ہے تیز یہ ہوا دستک
ڈر ہے درپیش، بے ضرر نہ سمجھ
رہتی آگاہی حال سے ہمیں ہے
آندھیوں سے بھی بے خبر نہ سمجھ

0
43
پیارے نبؐی کی تعلیمات سے جو شخص محبت کرتا ہے
مردِ مومن یہی انساں سے پھر پیار و اخوت کرتا ہے
سرکارؐ کی بعثت سے کفر و باطل کی جڑیں مٹتی ہی گئی
"عالم کو ربیع الاول بھی کیا محوِ مسرت کرتا ہے"
طیبہ کی حقیقی عظمت جب تاریکیاں دل کی مٹا ڈالے
یثرب کی مقدس خاک وہ چومے بندہ عقیدت کرتا ہے

0
44
اپنوں سے نرم گفتگو کیجئے
ملنے کی آس و جستجو کیجئے
ہجر میں حال جب شکستہ ہو
"آئینہ ان کے روبرو کیجئے"
تیرگی مٹتی شمعِ علم سے ہے
دیپ روشن یہ کو بکو کیجئے

0
25
قلم کی نوک سے لوگوں کو جب بیدار کرتے ہیں
حصولِ رَسْتَگی کی راہ ہم ہموار کرتے ہیں
وطن کی سالِمِیت ہی اثاثہ ہے ہمارا کل
"لہو سے سینچ کر ہم ملک کو گلزار کرتے ہیں"
ہے جان و دل ترنگے پر فدا مانندِ پروانہ
یوں اپنی حب الوطنی کا اظہار کرتے ہیں

0
65
شاعری لکھنے بہانہ چاہیئے
قرب کا موسم سہانہ چاہیئے
پلکیں راہوں میں بچھی ہیں اب سے کیوں
"ان کو آنے کو زمانہ چاہیئے"
ہوں عزائم مر مٹینگے قوم پر
قرض ملت کا چکانا چاہیئے

0
32
آزمائش سے ڈر نہ جائے کہیں
خوف کے مارے مر نہ جائے کہیں
عارضی رہتے ہیں یہ رنج و الم
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں

0
47
جو پہیلی خود سے جڑی تھی، پر اسے بوجھتا کوئی اور ہے
مرے بولنے کی تھی باری، پر وہاں بولتا کوئی اور ہے
کبھی چاہیں وہ بے خیالی میں بھی تو ہوں بے سود ہی چاہتیں
"میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے"
سبھی مرحلوں پہ ہمیں قدم تھے بڑھانے پھونکتے ہی مگر
ہمیں چوکسی تھی برتنی پر، یہاں چونکتا کوئی اور ہے

0
48
نعتِ سرکارؐ کو گنگناتے چلو
محفلوں میں محبت بڑھاتے چلو
ورد صؐلَِ علیٰ کا روا ہم رکھیں
"قلب کو نور سے جگمگاتے چلو"
جب جلوسِ عقیدت ہو میلاد کا
تب قدم سے قدم بھی ملاتے چلو

0
37
سامنے بطحہ کا ہی منظر ہے
کب سے دل ہو چلا یہ مضطر ہے
عزم گر پنپے گا زیارت کا
نیکی کا کھول دے گا دفتر ہے
سینہ میں ہو مدینہ کی چاہت
اپنے ایمان کا وہ جوہر ہے

0
33
فرقہ میں ہر کوئی منقسم ہو گیا
باہمی الجھنوں میں بھی گُم ہو گیا
لوٹ آئی ہے چہرے پہ کچھ تازگی
"تم کو دیکھا تو غم میرا کم ہو گیا"
دست بوسی ہو جب اپنے استاد کی
رب کے شکرانے میں سر یہ خم ہو گیا

0
28
تسخیرِ دل کو سہل یہ اشعار کرتے ہیں
بدمزگی میں بھی روح کو سرشار کرتے ہیں
آوازِ احتجاج خطا بن گئی ہے اب
گر شکوہ لب ہوں، بر سَرِ پیکار کرتے ہیں
لڑوا کے خوب لطف اٹھائیں گے وہ سبھی
مل کے چلو عوام کو بیدار کرتے ہیں

31
کل جہاں کی ہدایت پہ لاکھوں سلام
مُہرِ ختمِ رسالتؐ پہ لاکھوں سلام
دشمنوں سے شگفتہ بیاں ہی رہے
"مصطفیٰؐ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام"
جو ستاروں کی مانند کہلائے ہیں
جاں فدا سے شفقت پہ لاکھوں سلام

2
61
بِپتا کبھی تو اپنی بتائیں گے ایک دن
پارینہ داستان سنائیں گے ایک دن
چاہت پہ اعتبار نہیں ہو اگر مرے
"سینے کے داغ تم کو دکھائیں گے ایک دن"
رسوائیوں کو ہنستے ہی جھیلا ہے سب مگر
تضحیک کا مزہ بھی چکھائیں گے ایک دن

31
سہانے جب یہ منظر بولتے ہیں
موافق اس کے خُوگر بولتے ہیں
سکھایا ہے جنہیں طرزِ تکلم
"وہ اپنی حد سے بڑھ کر بولتے ہیں"
عُلّوِ شان کا ادراک ہو تب
ثنا خوانی میں منکر بولتے ہیں