Circle Image

Nasir Ibrahim Dhamaskar

@Nasir.Dhamaskar

@nasir

آنکھوں سے صادر یہ شرارت ہو گئی
آپ سے کیسی یہ محبت ہو گئی
ہلکی سی جنبش نے اثر دل پہ کیا
دیکھتے ہی دیکھتے الفت ہو گئی
شکریہ اقرارِ وفا کرتے چلے
کتنی ہمیں قلبی مسرت ہو گئی

19
مدینہ جائیں گے، دل کی مرادیں پائیں گے
جبیں کو خم کئے سجدے میں گڑ گڑائیں گے
وہ سبز جالیوں پر نظریں ہم جمائیں گے
درود، ذکرِ نبی لب پہ بھی سجائیں گے
ہو روضہؐ پر کبھی اپنی جو حاضری پھر کیا
جو تشنگی بسی دل میں ہے سب مٹائیں گے

0
11
متین، نرم یہ لہجہ دکھائی دیتا ہے
وفا شعار یہ شیوہ دکھائی دیتا ہے
شبیہ کش کی ہو کاری گری عیاں اس میں
"یہ آئینے میں جو چہرہ دکھائی دیتا ہے"
رہے فنا وہ سدا ناتواں کی خدمت میں
غریبوں کا جو مسیحا دکھائی دیتا ہے

7
جو انقلاب کبھی رونما نہیں کرتے
وہ کارِ خیر کی ہی ابتدا نہیں کرتے
خسارہ میں گِھرے اکثر وہ لوگ رہتے ہیں
بڑوں کی مان کے جو بھی چلا نہیں کرتے
ادب، تمیز ضروری ہے زیست میں اپنے
"یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے"

12
صنم بے وفا وہ بنے بیٹھے ہیں
مجسم خطا وہ بنے بیٹھے ہیں
بظاہر نظر آتے ہیں کچھ مگر
"زمیں پر خدا وہ بنے بیٹھے ہیں"
نہ اقرار کرتے نہ انکار بھی
سراپا حیا وہ بنے بیٹھے ہیں

0
9
آزاد پسندوں کا جہاں اور ہی ہے
مخمور ہو تو کُوئے مغاں اور ہی ہے
نرگس کہیں چمپا کہیں گل لالہ کھِلے
گلشن کی فضا، حُسن و سماں اور ہی ہے
حق تلفی پنپنے کبھی دینگے نہیں گر
انصاف ہو قائم تو اماں اور ہی ہے

0
9
جنم دن پر ہم کو نذرانہ محبت کا ملا
کچھ تو جاناں سے ہمیں انعام فرحت کا ملا
خواہشِ دیرینہ اک دن اپنی پوری ہو سکی
شکر ہے پیغام آخر آج الفت کا ملا
انتظارِ یار میں بےچینی کا اظہار تھا
پھر سلامِ عشق جُھک جُھک کر عقیدت کا ملا

0
15
درد ملت کا ہمیں رکھنا سدا ہے محترم
عافِیت اندیشی میں رہنا فنا ہے محترم
انقلابی کاموں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیں ضرور
نوجواں بھی ساتھ ہوں گر، تو مزا ہے محترم
امتحاں سے خوف کھانا بزدلی کا ہے نشاں
مشکلیں رہتی ہیں مہماں، کچھ پتا ہے محترم

0
8
اجڑے وہ آشیاں تک گیا ہوں
بیتی اک داستاں تک گیا ہوں
دل پہ جو رکھ کے پتھر کبھی میں
"پوچھتے ہو کہاں تک گیا ہوں"
شاملِ غم بنوں سوچ کر ہی
چھوڑنے کارواں تک گیا ہوں

14
گلستاں میں یہ عمدہ پھول کھلے
پُر حسیں نور دیدہ پھول کھلے
سحر انگیز رت بھی چھائی ہے
گریہ شبنم نمیدہ پھول کھلے
کیا مہک کن فضا گلوں سے ہوئی
کیسے دلکش غنودہ پھول کھلے

16
گر ملے سب سے با ادب کوئی
تب کہیں اعلٰی ہے نسب کوئی
ٹوکنا تھا درستگی کے لئے
"مجھ سے روٹھا ہے بے سبب کوئی"
زیست میں ہو سرور ایسا بھی
چھڑ گیا ساز پر طرب کوئی

0
14
وعدہ کب یار نے نبھایا ہے
ہم کو ہر بار ہی رلایا ہے
پنچھی پہچانتے ہیں خطرہ کو
"جال صیاد نے بچھایا ہے"
اُن سے اظہارِ عشق ہو تو گیا
شور پھر کیوں بے جا مچایا ہے

0
16
تصویر میں جیسے ترا چہرہ پایا
کچھ ہو بہو نزدیک سے ویسا پایا
بے آبروُ ہو کے جو پلٹ کے آئے
کوچہ پہ ترے سخت سا پہرہ پایا
ہر مات نے ہمت ہے بندھائی میری
امید نئی جاگی ہے جو رسوا پایا

0
15
نو رسیدہ شگوفے کِھلنے لگے
کُل چمن خوشبُو سے مہکنے لگے
نقشِ پا کے سراغ مٹنے لگے
"کارواں راستے بدلنے لگے"
باخبر حال سے بشر ہو گر
اُس کے دل کا جہاں چمکنے لگے

0
19
کاش امت کی جو بگڑی کو بناتے جاتے
کام دعوت کا بھی سینہ سے لگاتے جاتے
فکر کے حلقے محلوں میں سجاتے جاتے
گشت میں کوچے گلی خود کو تھکاتے جاتے
ديں کے ماحول کی برکت سے ہوا بدلاؤ ہے
"دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے"

0
17
مبارک جو آمد تھی سرکارؐ کی
خبر لے کے آئی تھی انوار کی
بلایا جو معراج میں رب نے تھا
عیاں ہو گئی شان ابرارؐ کی
مدینہ سے دوری ہے بے حد گراں
"گزر جائے رت جیسے گلزار کی"

0
16
آس اب کچھ نہیں تجھ کو پانے کے بعد
رنج بھی مٹ گئے تیرے آنے کے بعد
اک شرارہ جو بن جائے شعلہ کبھی
جزبوں میں بہتری ہو، جگانے کے بعد
کارنامہ غمِ ہجر نے کر دیا
"ایک مدت ہوئی مسکرانے کے بعد"

0
15
درس الفت کے جو ڈھونڈے تو فسانے سے ملے
لذتِ عشق مگر غم کو اٹھانے سے ملے
راہیں پُر خار ہیں، دامن کو بچائیں کیسے
"داغ دنیا نے دیے، زخم زمانے سے ملے"
جزبوں میں جوش ہے، پر جوڑ نہیں فکروں میں
سوچ تو ہے نئی، انداز پرانے سے ملے

0
13
مقصد بھی نہیں چھوڑا، منشا بھی نہیں بدلا
اوروں کی بھلائی کا جزبہ بھی نہیں بدلا
طوفان و حوادث میں بھی سینہ سپر تھے وہ
"کشتی بھی نہیں بدلی، دریا بھی نہیں بدلا"
باتیں ہیں تکبر والی، چالیں اکڑ والی
حالات کے مارے ہیں، لہجہ بھی نہیں بدلا

0
16
ہچکولے کشتی کھا رہی اپنی بھنور میں ہے
بچنا بھی اپنا اس کے ہی اب مقتدر میں ہے
غمخواری ہے دلِ بے کراں میں بھری ہوئی
"سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے"
مہکی فضائیں، دلکش و رنگیں شگوفہ نو
پُر کیف، پُر بہار سماں وہ نظر میں ہے

0
19
سوئے ہُوئے جزبات کو بیدار کرو تو
الفت کا صنم سے کبھی اظہار کرو تو
کم ظرف کبھی سوچ کے بولا نہیں کرتے
دانائی، فراست بھری گفتار کرو تو
سیلِ انا ہر وقت تمہیں زیب کہاں دے
ملت کی بقا کے لئے ایثار کرو تو

0
21
رہِ طلب میں کبھی وہ مقام آ جائے
اتھاہ گہری لگن اپنی کام آ جائے
مریضِ عشق کو کچھ تو، پیام آ جائے
"خدا کرے کہ تمہارا سلام آ جائے"
فضائیں منچلی، آنکھیں بھی ہوں خمار زدہ
ہوائیں ٹھنڈی چلیں، اور شام آ جائے

0
23
گل کو ملی پاکیزگی تھی شبنم سے
مہکی تھی فضا ساری، حسیں موسم سے
گلشن سے کہا جھڑتے ہی گل نے ایسے
"اس بزم کی رونق تھی ہمارے دم سے"
تالاب کے پانی سے گماں مشکل ہے
موجوں کی روانی کو جانے قلزم سے

0
16
عالم پہ نور چھا گیا بعثت سے آپؐ کی
خالق سے رشتہ جڑ گیا رحمت سے آپؐ کی
توحید کی پکار نے یکسر بدل دیا
گمراہی ختم ہوئی عنایت سے آپؐ کی
قرآں کا گر ہے سامنے اسوہ ہمارے پھر
"منزل ملی ہے ہم کو تو سیرت سے آپؐ کی"

16
چہرہ حسیں پلٹ کے دِکھایا نہیں کبھی
"ایسا گیا کہ لوٹ کے آیا نہیں کبھی"
ہرجائی پن کی چالیں ہُوئیں آشکار جب
دوبارہ نظریں اپنی ملایا نہیں کبھی
تخریب کاری کی جڑیں مطلق مٹانے سے
ناپاک سازشوں کو رچایا نہیں کبھی

13
ہے جو اپنے قرار کا دشمن
ہے وہی اِس بہار کا دشمن
قابلِ اعتماد کوئی نہیں
"یار ہوتا ہے یار کا دشمن"
ہمنشیں کو ہی وہ سمجھتے ہیں
اجڑے باغ و دیار کا دشمن

14
کردار اب کسی کے ہیں ملتے کھرے کہاں
سارے ہی لوگ رہتے مگر ہیں برے کہاں
دنیا یہ مفت میں کسی کو پالتی نہیں
مزدوری کے بنا ملیں گے ٹھیکرے کہاں
بھائی بہن، نہ ماموں، نہ تایا، نہ پھوپا بھی
ماں باپ پُوچھتے رہیں گے، دوسرے کہا‌ں

15
لب پہ ہر وقت مولیٰ کی ثنا ہے
لطف مالک کا مجھ پہ جو ہوا ہے
کہکشاں اور تاروں کی یہ چمک
کیا فلک، کیا قمر یہ سب مہا ہے
ہے سزاوار تجھ کو کاری گری
کیا زمیں، کیا خلیج، کیا خلا ہے

0
14
دینداری کے سارے دعوے ہیں
پارسائی کے بس دکھاوے ہیں
شائبہ مکْر کا کہیں نہ ملے
"یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں"
ظاہری رنگ زہد و تقویٰ کا
دیکھنے والے محض اُلجھے ہیں

0
17
خاص رب کی عطا آج کی رات ہے
جس پہ ہے دل فدا آج کی رات ہے
بن گئے ہمسفر جبرَئل آپؐ کے
عرش بھی سج گیا آج کی رات ہے
تاجدارِ مدینہؐ ہوئے روبرو
ہم کلامِ خدا، آج کی رات ہے

0
22
پرانی سوچ کو گر تم بدل سکو تو چلو
جدید نسل کے کچھ سنگ مل سکو تو چلو
وجود کامنی، نازک مہین چہرہ ہے
"سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو"
ڈگر کٹھن ہے مقابل پڑی ہوئی اپنے
وفا کے کھیل میں دے اپنا دل سکو تو چلو

0
22
ناراض خدا ہوتا ہے دل کو دُکھانے سے
خوش ہوتا ہے وہ بچھڑے بندوں کو ملانے سے
تشنہ لبی کیسے مٹ جائے گی ہماری اب
"ویران ہوئی دنیا اک آپ کے جانے سے"
کرنا ہے تعاون اب حالات کے ماروں کو
دہلے ہیں ممالک جو بھی زلزلے آنے سے

0
13
شوق گر ہم کو ہوگا پڑھنے کا
راستہ مل ہی جائے پانے کا
سوختہ بخت کی پکار کو سن
"آسرا چھن گیا ہے جینے کا"
کیوں نہ آواز ہم اُٹھائیں اب
کیا نتیجہ ملا ہے سہنے کا

0
12
ملت کے نوجواں کو جگاتے تو بات تھی
اخلاقی ہم فریضہ نبھاتے تو بات تھی
سردار سے ہی کیسے بغاوت یہ ہوگئی
گر ذاتی اختلاف مٹاتے تو بات تھی
سیرابی دل کے اجڑے چمن کی نہ ہو سکی
"وہ تشنگئی شوق بجھاتے تو بات تھی"

0
18
محبی چھوڑ کر جانے لگے ہیں
ہمارا من ہی تڑپانے لگے ہیں
رفیقِ بزم ہی جب روٹھ جائیں
"دلوں کے پھول مرجھانے لگے ہیں"
ہمارے درمیاں امجد تھے سب میں
وہ اب باغِ عدن چھانے لگے ہیں

0
16
سب کو تُو خدایا رکھنا اپنی پناہوں میں
گھیرے میں نہیں لینا، آفت یا عذابوں میں
عاصی ہیں، مگر تیرے محبوبؐ کی امت ہے
سرکارؐ کے صدقہ رکھنا ہم کو تُو نازوں میں
لرزہ دیا تھا جس نے، واں زلزلے ہیں برپا
ترکی کے مسلماں کو رکھنا تُو سہاروں میں

0
14
حسیں محفل کسی دن سجاتے ہیں
غزل اپنی تمہیں پھر سناتے ہیں
بلا کر تو کبھی دیکھنا ہم کو
کِیا وعدہ نبھا کے دِکھاتے ہیں
محبت ہو چلی رسمی ہے جب سے
"لگانے کو سبھی دل لگاتے ہیں"

0
19
چھا گیا تھا زمانہ جو رسالت کا
دور آتا گیا ہر سُو صداقت کا
اک اُبی نام کا کٹر منافق تھا
"جانے دیتا نہ تھا موقع شرارت کا"
کیا مہاجرؓ تھے کیا انصاریؓ سب تھے ایک
اخوہ قائم ہوا باہم اعانت کا

0
20
بے کسی کا کبھی اظہار نہ ہونے پائے
حالِ مجبوری میں اوتار نہ ہونے پائے
جاں سے بڑھکر بھی وفاداری نبھاتے جائیں
"یار کو رغبتِ اغیار نہ ہونے پائے"
یوم و شب ایک ہی دُھن رکھنے سے منزل ملے گی
فکر جو پالی ہے بیکار نہ ہونے پائے

0
21
جھرنے ندی سے تو کبھی ساگر نہیں ملتا
سب بحروں میں کاہل سا سمندر نہیں ملتا
تقدیر کی گتھی کوئی سلجھا نہیں پایا
"دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا"
فطرت رہی ہے حضرتِ انساں کی ہمیشہ
تکرار ہو گر کوئی تفکر نہیں ملتا

0
12
ذرا بن ٹھن کے جو دلبر بھی آئے
حسیں زہرہ جبیں پیکر بھی آئے
ہوائے دید بن کے منتظر ہیں
"کوئی لمحہ دھنک بن کر بھی آئے"
جگر کو تھام کر بیٹھے ہیں سارے
جری، شعلہ بیاں، لیڈر بھی آئے

0
24
بہتے ہیں سدا دریا
رب کی ہے، عطا دریا
اُس نے برف پگھلایا
کوہ سے روا، دریا
موجوں میں ہو طغیانی
دیتے ہیں، صدا دریا

0
24
چہرہ خوش رنگ بنا کے رکھا ہے
زخم سینہ میں چُھپا کے رکھا ہے
گر عدو جان لے تو خیر ہی ہے
"جو کفن ہم نے سلا کے رکھا ہے"
ایک مدت سے رہیں جن کے قریب
اُس نے ہی آج بُھلا کے رکھا ہے

0
24
رہیں ہشیار بن کے ہم اگر چکما نہیں ملتا
نمایاں کارناموں کے بجز چُوما نہیں ملتا
بہ قدرِ ظرف ہی قیمت لگائی جاتی ہے اکثر
کشیدہ کاری ہو بدحال تو دمڑا نہیں ملتا
رفیع الشان کی پہچان اہلِ قدر ہی جانے
نظر کو بھا سکے نایاب وہ ہیرا نہیں ملتا

0
18
کبیرہ کچھ گناہوں کے سبب خَبال ہو گیا
عذاب کا سَروں پہ بے جا کچھ وَبال ہو گیا
غروب سلطنت پہ شمس جس کی ہو نہیں سکا
ابھرتی قومیت کا اس کی بھی زوال ہو گیا
رئیس بننے کے فراق میں حدیں پھلانگ دیں
کہ سود خوری کا بھی پیشہ اب حلال ہو گیا

0
18
دامن کو ٹھیک سے پسارو
رب سے فریاد کو سنوارو
جنت کی آرزو اگر ہے
اپنے اعمال کو سدھارو
لب پر ہو عاجزی تمہارے
"تم اہلِ دل کو جب پکارو"

0
17
عشقِ صادق کبھی فنا نہ ہوا
حق تو جاں دے کے بھی ادا نہ ہوا
لعن کے باوجود اف نہ کیا
یار ہم سے کبھی خفا نہ ہوا
غم کی آہٹ نے گھیرے میں لے لیا
"آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا"

0
21
کیوں ڈوبتے ہُوئے کو بچایا نہیں گیا
ہمدردی کے سبق کو نبھایا نہیں گیا
محوِ تماشہ بننے کی لت رہتی ہے بری
دکھ کی گھڑی میں دکھ بھی جتایا نہیں گیا
مطلب پرستی بڑھ چکی اب تو بے انتہا
"تشنہ لبی میں جام پلایا نہیں گیا"

0
17
شاید یہ جان بوجھ کے پہرے بدل دیئے
الزام کو مٹانے یہ دعوے بدل دیئے
موضوع زیرِ بحث تھا کچھ اور ہی مگر
"کس نے بساطِ بحث کے مہرے بدل دیئے"
آگاہ چالبازی سے جب لوگ ہو گئے
مکر و فریب کے لئے حیلے بدل ديئے

0
23
کب سے رہ پر مری پلکوں کو بچھا رکھا ہے
حسرتِ دید میں سینہ کو جلا رکھا ہے
ہوش اڑنے لگے ہیں تب سے مرے ہوش ربا
"جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے"
باخبر کیوں نہ صنم چاہنے والا بھی ہو
کس اداسی کے سبب حال گِرا رکھا ہے

0
19
جو آج تک نہ بتایا وہ اب بتا دوں گا
حیا کے پردے بھی ممکن ہو گر ہٹا دوں گا
فریب سے مری جاں احتیاط ہو ورنہ
"میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا"
خطا نہ ہو سکا کوئی نشانہ ہے اپنا
شکار پنجہ میں اپنے مگر دبا دوں گا

0
20
کب سے رہ پر مری پلکوں کو بچھا رکھا ہے
حسرتِ دید میں سینہ کو جلا رکھا ہے
ہوش اڑنے لگے ہیں تب سے مرے ہوش ربا
"جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے"
باخبر کیوں نہ صنم چاہنے والا بھی ہو
کس اداسی کے سبب حال گِرا رکھا ہے

0
23
کچھ نہیں ہوتا یہاں دینار سے
پائے گا سب رب کے ہی تذکار سے
گول ہے دنیا کا اس جغرافیہ
"بن گیا اک دائرہ پرکار سے"
ایک خالق کی محبت دل میں ہو
پاک رکھیو اپنے من اغیار سے

16
عجیب مخمصہ میں ہے کہ جیتنا بھی نہیں
پسند ان کو مگر آئے ہارنا بھی نہیں
قریب رہنے سے ڈسنے لگی یہ قربتیں ہیں
"اسی کو چاہنا اور اس سے بولنا بھی نہیں"
وفا کے کھیل میں حد درجہ غرق کوئی ہو پھر
سوائے عشق و محبت کے سوچنا بھی نہیں

14
نہ جانے عرصہ دراز سے یار تم بہت ہی خفا رہے ہو
بتاؤ کیوں ایسے سرگُزِشت و فسانہ اپنا سنا رہے ہو
زباں پہ ہیں بول میٹھے، کرتوت بر مخالف جتا رہے ہو
ستمگروں سے زیادہ، ہمدرد رہ کے بھی تم ستا رہے ہو
مثال قائم ہو سکتی ہے سورما کے جیسی پہ شرط ہے کچھ
کٹھن گھڑی رہتے وعدہ احسن طریقے سے گر نبھا رہے ہو

16
فرحت، نشاط ساتھ لئے آئی ہے گھڑی
مل کے چلو مناتے ہیں ہم دیس میں خوشی
کر دے منادی ہر گلی، ہر کُوچہ، ہر مکاں
"آ تُو بھی آ کہ آگئی چھبیس جنوری"
ماحول نغموں، گیتوں سے پُرکیف ہے بنا
جلسے جلوس، نعروں کی آواز ہو چلی

0
30
کیوں خوف زدہ ہو تم حق بات بتانے سے
ڈرتے رہیں گے کب تک آواز اٹھانے سے
سچائی عیاں روزِ روشن کی طرح ہے پر
"تم باز نہیں آتے الزام لگانے سے"
بے غیرتی کے باعث رسوا ہو چلے ہیں ہم
لوٹے گی اصالت پھر غیرت کو جگانے سے

0
31
عمل سے دور رہنا بے مزہ ہے
اُسے عقبٰی میں پانا پھر سزا ہے
مُریدوں پر تصرف کا ہے منشا
"مری محفل مرا خلوت کدہ ہے"
سعی سے نفس کی اصلاح ہوگی
ریاضت پر مراتب کی بقا ہے

0
23
بزم کو یار نے جِلا دی ہے
دردِ دل کی بڑی دوا دی ہے
تجربہ ہم کو درس دیتا ہے
"عشق تاریکیوں کا عادی ہے"
چرچہ ہر سمت اُس کا کیوں نہ چلے
زندگی قوم پر مٹا دی ہے

20
کبھی سامنے کچھ بتائے گی دنیا
پسِ پشت گُل کچھ کھلائے گی دنیا
کرے منہ پہ تعریف، پیچھے برائی
"یہ رنگ اپنا اک دن دکھائے گی دنیا"
سکوں دل بھی پائے، ادا تعزیت بھی
بظاہر تو ماتم رچائے گی دنیا

0
25
چمن میں ہم تبھی فصلِ بہار دیکھیں گے
کہ باغباں کو ہمہ وقت وار دیکھیں گے
جی جان سے کرے گلشن کی وہ نگہبانی
وگرنہ سارے گلستاں میں خار دیکھیں گے
وطن سے دور جو رہتے ہیں، سوچتے ہوں گے
پلٹ کے اپنے وطن کا دیار دیکھیں گے

0
24
خوشیوں کی گھڑی پانے سے سرشار ہوئے ہیں
موسم کے بدل جانے سے مہکار ہوئے ہیں
اک منزِلِ نو کی ہمیں خواہش ہو چلی ہے
"ہم رختِ سفر باندھ کے تیار ہوئے ہیں"
آمد ہی نئے سال کی پُر کیف بڑی ہے
راہوں میں دِئے جلنے سے انوار ہوئے ہیں

0
17
دینی علوم کے ہیں جو ساگر بنے ہوئے
اخلاق کے بھی ہیں وہی پیکر بنے ہوئے
ملت کی پاسداری میں پائی ہو فوقیت
دینِ مبین کے ہیں مفکر بنے ہوئے
افسوس! انقلاب کی تحریک مر چکی
"مدت ہوئی قفس کو مرا گھر بنے ہوئے"

0
19
خدا کے پیمبرؐ سدا گھل رہے تھے
وہؐ عقبہ میں تبلیغ کرتے جٹے تھے
حفاظت کی بیعت میں بازی لگائی
سعادت کو انصارؓ ہی پا چکے تھے
شروعات ہجرت کی خودؐ سے کرائی
ابو بکرؓ ہمراہی انؐ کے بنے تھے

0
21
سعی کریں گے اگر مل کے آشتی کے لئے
مثال ہو سکے قائم یہ پھر صدی کے لئے
ترس رہی ہیں نگاہیں بھی دید کی خاطر
"ہمارے پاس چلے آؤ دو گھڑی کے لئے"
اداس تم کبھی ہرگز صنم نہ ہو جانا
بہار لوٹے گی گلشن میں دلبری کے لئے

0
19
ہاتھوں سے جب کمان اڑا لے گئی ہوا
تیروں کے تب نشان اڑا لے گئی ہوا
گلشن میں خوشگواری رہی عارضی بہت
"پھولوں کی داستان اڑا لے گئی ہوا"
کامل یقیں ہو ایسے میں تو ناخدا پہ بس
کشتی کے بادبان اڑا لے گئی ہوا

0
30
جو زندگی میں رکھتے ہیں کوئی حسی نہیں
تقدیر کے سنورنے میں ان کی چلی نہیں
موقع گنوانے والے نصیحت کو جان لیں
"گویا ابھی نہیں کا ہے مطلب کبھی نہیں"
خالی رہے تھے ہاتھ سکندر کے آخرش
فانی جہاں میں بات کسی کی بنی نہیں

0
33
جرأت کے سامنے یہ طوفان کچھ نہیں
صبر و شکیب ہو تو عُدوان کچھ نہیں
جکڑے ہوں دام گستر کے جب شکنجہ میں
شیرہ ءِ جاں کے درد و ضربان کچھ نہیں
جزباتِ عشق میں بھی مغلوب ہونے سے
جرمِ وفا میں حائل زندان کچھ نہیں

0
23
حرا پر ملا مژدہ آخر الزماںؐ کو
بشارت ہوئی فخرِ کون و مکاںؐ کو
بنیں ہمسفر جبرَئیلِؑ امیں تھے
"تھی حسرت قدم بوسی کی آسماں کو"
ستم کیش سے نرم گفتاری رکھنا
اجاگر نبی کی ہے سیرت جہاں کو

0
24
ملت کے نوجوانوں! محکم وقار تم سے
ایثارِ نفس رکھیو، دار و مدار تم سے
ہیں والدین کے اپنے نور چشم سارے
"گلشنِ بہار تم سے دل کا قرار تم سے"
درکار ہے اُولو العزمی، مستقل مزاجی
عصمت کی پاسداری ہے برقرار تم سے

0
19
انمول موتیوں کو پرویا کریں گے ہم
اقبال مند یا اسے جسیا کریں گے ہم
پروان چڑھنے والی نئی نسل کے لئے
شعبۂِ دینیات کا اِحْیا کریں گے ہم
بر گشتہ اپنے ہی ملے اکثر یہاں ہمیں
"اب چاہتوں کے بیج نہ بویا کریں گے ہم"

0
26
تعلیم یافتہ ہی بیکار آج کل ہے
فکرِ معاش سے وہ بیزار آج کل ہے
پہچان اپنوں غیروں کی ہوگئی ہے مشکل
بغض و عناد سے دل افگار آج کل ہے
تہذیب کے سبق سب ہم نے سکھائے ان کو
کیوں ان کا نامہذب اظہار آج کل ہے

0
29
جِلا بخشی آقاؐ نے کامل مکاں کو
عطا کر دیں سوغاتیں بے خانماں کو
زمیں تا فلک غلبَۂ جلوہ سازی
"تھی حسرت قدم بوسی کی آسماں کو"
بنا مِیر کے قافلہ تھا ادھورا
شہِ انبیاؐ مل گئے کارواں کو

24
نام اس چیز کا محبت ہے
قربتِ یار میں ہی لذت ہے
اپنے دمساز کی ہیں یادیں بس
"خانۂ دل سرا کی صورت ہے"
من کے چلمن میں ایک ہلچل ہے
ہو چلی ہم قدم سے الفت ہے

0
23
ارادہ کِیا میلہ میں اک دن تھا جانے کا
یکایک ہوا غلبہ مگر نیند چھانے کا
بتوں پر چڑھاؤں سے رکھی آپؐ نے دوری
"ذبیحہ نہ کھایا تھا کبھی آستانے کا"
بلا ناغہ ہر رمضان میں شیوہ تھا اُنؐ کا
حرا میں عبادت کر کے من کو لبھانے کا

0
18
نظامِ عقائد بدلا کیسے زمانے کا
ہے حُسنِ اَثر نورِ ہُدیٰؐ جگمگانے کا
خرافات سے رب نے بچایا کرم کر کے
"ذبیحہ نہ کھایا تھا کبھی آستانے کا"
بے بس سہمے سب کفار تھے فتحِ مکہ پر
عجب تر سماں تھا آپؐ کے لوٹ آنے کا

0
28
مسکراہٹ چہرہ پر جب سے عیاں ہونے لگی
دل کدہ کی کیفیت گوہر فشاں ہونے لگی
جزبَۂ الفت میں معتوبِ زماں ہو جائیں گر
"کیا ہوا ہم سے جو دنیا بدگماں ہونے لگی"
گُلشَنِ نا آفریدہ کا تصور خوشنما
الجھنوں کے گام پر آہ و فغاں ہونے لگی

17
خوب اپنے عمل سنوارا کر
قبر کے واسطے اجالا کر
جب غمِ آگہی عیاں ہے ہوا
"دشت و صحرا میں اب پکارا کر"
چارہ گر ہی اگر ستم گر ہو
زخم کا خود ہی کچھ مداوا کر

0
20
بڑی زحمتیں ہیں اٹھائیں پھر بھی زباں پہ شکوہ نہیں رہا
کہیں لعن، طنز و مزاح، معترضہ بھی فقرہ نہیں رہا
بسی آرزو کئی عرصہ سے تھی کہ مطمئن ہو مگر کہاں
جسے جانے دیدنی ہم تھے اس میں ابھی وہ جلوہ نہیں رہا
بے رخی سے بچتے رہیں تو ساحِلِ آشنا ہو سکیں گے پر
یہ خیال خطرہ کی ہے نشانی کہ ہم کو خطرہ نہیں رہا

0
38
ہر کس و ناکس کو رہتا قریہ آبائی پسند
ہے جِبلّی طور پر انسان صوبائی پسند
ہو تخیل میں خلل ہرگز نہ پیدا اس لئے
"ہے دلِ شاعر کو لیکن کنجِ تنہائی پسند"
سوچنے کا طرز یا انداز سب کا ہے جدا
خامشی کچھ چاہیں تو کچھ رہتے شہنائی پسند

0
25
افکار کی بلندی اقبالؔ نے سکھائی
سنجیدگی و متانت گفتار میں نبھائی
شعروں سے نوجوانوں میں انقلاب آیا
معیارِ فکر سے ہلچل دل میں ہے مچائی

0
24
بد روی چھوڑنے کو لوگ بدل کہتے ہیں
خدمتِ خلق کو سب نیک عمل کہتے ہیں
عشقِ صادق کو فراموش نہ کر پائیں گے
"دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں"

0
15
بھول جانا نہیں ہے ذلت کو
مات دینا ہمیں ہے نفرت کو
پیار کے بول جب زباں پر ہوں
تب کریں گے قبول دعوت کو
ہوں فدا سارے جن کے رتبہ پر
داد ہو پیش ایسی رفعت کو

0
22
پیامِ محبت نہ آیا بلم کا
ہوا دل ہے آشفتہ خاطر صنم کا
نگاہِ تغافل کا ہے رقصِ پیہم
"تسلسل نہ ٹوٹا تمہارے ستم کا"
تفکر میں تعمیرِ نو جب ہو شامل
اثر انقلابی رہے پھر قلم کا

0
16
سخت احتیاج میں بھی سہارا نہیں ملا
اپنوں کی بھیڑ رہتے ہمارا نہیں ملا
جس کو نگاہوں سے کبھی تھا ہم نے کھو دیا
"راہِ وفا میں پھر وہ دوبارہ نہیں ملا"
پتوں پہ اوس ہے نہ گلوں میں ہے تازگی
گلشن میں روح بخش نظارہ نہیں ملا

0
15
کرتا ہے آجکل کُوئی سچی وفا کدھر
جانے بھی حالِ غیر یہاں ہم نوا کدھر
معمورَۂ جہاں کے نشاں بھول جانے سے
"یہ بھی خبر نہیں کہ گیا قافلہ کدھر"
شومِیٔ بخت دیکھئے کیا حال کر گئی
پلکیں بچھی ہیں راہوں پہ ہو دلربا کدھر

0
37
دیکھا نہ کبھی ہوگا جو دل آور ایسا
رکھتا ہو نرالا کچھ اپنا تیور ایسا
تسخیر جسے کرنا ہو کام بڑا مشکل
میداں میں ہمیشہ رہے پھر وہ برتر ایسا
ہے قابِلِ داد و دہش کرتب بازی جس کی
ہر سمت دلیری کے بکھرے گوہر ایسا

0
18
جو لڑکھڑا کے سنبھلتا کبھی رہا ہے جناب
مقامِ خاص اُسی کو ہی تو ملا ہے جناب
مزید صرفِ نظر آپ ہم سے اب نہ کریں
"ہمارے صبر کا پیمانہ بھر چکا ہے جناب"
منافرت کے قفس میں کیوں لوگ پھنستے ہیں
شکم کی آگ نے مجبور کر دیا ہے جناب

0
21
کیوں گماں ہے تجھے اس تیز ہوا سے کچھ ہو
رکھ یقیں پختہ نہ سرزد ما سوا سے کچھ ہو
کارگر کوئی نہ تدبیر ہو سکتی ہے اب
"دل میں وہ درد ہے جس کا نہ دوا سے کچھ ہو"
ابتری سے ہو چلا حال برا ہے اتنا
کچھ نہ رہبر سے بنے یا رہ نما سے کچھ ہو

0
29
علم سے شش ِجہَت اجالا ہے
جس سے خُرْد و کَلاں نِہالا ہے
بھینٹ ابعاد کے چڑھیں ہیں مگر
"تجھ کو دل سے کہاں نکالا ہے"
بد حواسی بے حال کر گئی پر
جزبَۂ شوق کو سنبھالا ہے

0
16
زرفشاں جب خیال ہو جائے
زندگی تب نہال ہو جائے
گر پشیماں ہو یار تو بنے بات
"ہجر ٹوٹے وصال ہو جائے"
میل جزبے ہمارے کھاتے ہوں
منتہائے کمال ہو جائے

0
25
یہاں جو بن کے محبِ رسولؐ جیتا ہے
وہی حبیبِؐ خدا کا بڑا چہیتا ہے
یہ مہرو مہ، یہ کواکب، فلک، زمیں سب کچھ
"نبؐی کے نام پہ سارا نظام چلتا ہے"
سدا نوازِشِ پیہم سے سرفراز کیا
کرم چہار سُو بھی آپؐ کا جھلکتا ہے

0
19
لگاؤ قلبی رہے اس عزیز ملت سے
تبھی ہو رشک درخشندہ اس کی قسمت سے
مراقبہ میں مخل شور ہو رہا ہے یہاں
"کوئی ہواؤں کو ٹوکے ذرا محبت سے"
ضمیر و روح کے فاتح کبھی نہیں مرتے
وہ مر کے زندہ ہی رہتے ہیں اپنی فکرت سے

0
13
بزمِ جہاں میں احمدِؐ مختار آ گئے
اک مژدہ جاں فزا لئے سرکارؐ آ گئے
گمراہی پھیلتی رہی سرعت سے ہر طرف
ظلمت مٹانے بن کے وہ انوار آ گئے
فخر الانبیاؐء کا جن کو لقب ملا
آقائے مدنؐی نبیوں کے سردار آ گئے

2
31
ايثارِ وفا کا گُر ہم سمجھیں جیالوں سے
آدابِ محبت کوئی سیکھے فسانوں سے
دیکھو نہ حقارت سے افلاس کے ماروں کو
"ایوان دہلتے ہیں مظلوم کی آہوں سے"
معبودِ حقیقی کرتا ان پہ کرم اپنا
تائب بنیں گے جو بندے اپنی خطاؤں سے

0
20
پُر حسیں چھایا گلستاں میں ہے منظر ہر طرف
مسکراہٹ، چہچہاہٹ کا ہے مظہر ہر طرف
بے خودی، مدہوشی کے عالم میں انساں بے خبر
بے حیائی، بے اوانی کا ہے مسکر ہر طرف
ناگہانی آفتیں ہم پر مسلط ہو گئیں
"ہے بپا دنیا میں اب تو شورِ محشر ہر طرف"

0
21
نور ہر سُو ہوا مصطفؐیٰ آگئے
بخت و مسعود بدر الدجؐیٰ آگئے
دل کی تاریکیوں کو جلا مل گئی
مرحبا ماہتاب و ضیا آ گئے
سب نے صادقؐ پکارا جنہیں پیار سے
رب کے محبوب شمس الضحؐیٰ آگئے

0
23
حضورؐ کی سبھوں کو پیروی ضروری ہے
کڑھن ہر ایک زن و مرد کی ضروری ہے
رسولِ عربؐی کے عاشق کا ہو مزاج یہی
"سکونِ قلب کو ذکرِ نبیؐ ضروری ہے"
قدم یہ اٹھتے نہیں پر اٹھائے جاتے ہیں
عقیدہ دل میں یہ رکھنا قوی ضروری ہے

0
22
جب کبھی وعدہ وفا ہوتا ہے
عشق میں تب ہی مزہ ہوتا ہے
یادِ جاناں کی ہو گردش ہر سمت
"زخمِ دل پھر سے ہرا ہوتا ہے"
حسرتیں بنتیں مقدر اپنا
یار جب ہم سے جدا ہوتا ہے

0
16
کئی اُولُوالعزم نبیوںؑ نے جتائی تھیں یہ حسرت بھی
عطا کر دے خدا امت پنہ میں ادنیٰ نسبت بھی
جہاں پر رحمتیں ہر سُو بے پایاں جس سبب چھائیں
"وہی ہے باعثِ رشد و ہدایت بھی شفاعت بھی"
محمدؐ نام آئے مالکِ کون و مکاں کے ساتھ
امام الانبیا بھی آپؐ ہیں تاجِ نبوت بھی

0
29
آسماں کو چھوتے ہیں اب دام جو بازار میں
خستہ دامن ہو چلے مہنگائی کی اس مار میں
دل لگی میں ہو اگر چین و سکوں برباد بھی
"بے قراری کا مداوا ہے خیالِ یار میں"
راس قلت ہے نہ کثرت ہے یہاں ہم کو مگر
ہو بے کیفی پر شکارِ اندک و بسیار میں

0
24
رت بدلتی ہے پر خطر نہ سمجھ
روٹھ جائے گی کچھ سحر نہ سمجھ
دیتی ہے تیز یہ ہوا دستک
ڈر ہے درپیش، بے ضرر نہ سمجھ
رہتی آگاہی حال سے ہمیں ہے
آندھیوں سے بھی بے خبر نہ سمجھ

0
25
پیارے نبؐی کی تعلیمات سے جو شخص محبت کرتا ہے
مردِ مومن یہی انساں سے پھر پیار و اخوت کرتا ہے
سرکارؐ کی بعثت سے کفر و باطل کی جڑیں مٹتی ہی گئی
"عالم کو ربیع الاول بھی کیا محوِ مسرت کرتا ہے"
طیبہ کی حقیقی عظمت جب تاریکیاں دل کی مٹا ڈالے
یثرب کی مقدس خاک وہ چومے بندہ عقیدت کرتا ہے

0
35
اپنوں سے نرم گفتگو کیجئے
ملنے کی آس و جستجو کیجئے
ہجر میں حال جب شکستہ ہو
"آئینہ ان کے روبرو کیجئے"
تیرگی مٹتی شمعِ علم سے ہے
دیپ روشن یہ کو بکو کیجئے

0
20
قلم کی نوک سے لوگوں کو جب بیدار کرتے ہیں
حصولِ رَسْتَگی کی راہ ہم ہموار کرتے ہیں
وطن کی سالِمِیت ہی اثاثہ ہے ہمارا کل
"لہو سے سینچ کر ہم ملک کو گلزار کرتے ہیں"
ہے جان و دل ترنگے پر فدا مانندِ پروانہ
یوں اپنی حب الوطنی کا اظہار کرتے ہیں

0
33
شاعری لکھنے بہانہ چاہیئے
قرب کا موسم سہانہ چاہیئے
پلکیں راہوں میں بچھی ہیں اب سے کیوں
"ان کو آنے کو زمانہ چاہیئے"
ہوں عزائم مر مٹینگے قوم پر
قرض ملت کا چکانا چاہیئے

0
23
آزمائش سے ڈر نہ جائے کہیں
خوف کے مارے مر نہ جائے کہیں
عارضی رہتے ہیں یہ رنج و الم
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں

0
23
جو پہیلی خود سے جڑی تھی، پر اسے بوجھتا کوئی اور ہے
مرے بولنے کی تھی باری، پر وہاں بولتا کوئی اور ہے
کبھی چاہیں وہ بے خیالی میں بھی تو ہوں بے سود ہی چاہتیں
"میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے"
سبھی مرحلوں پہ ہمیں قدم تھے بڑھانے پھونکتے ہی مگر
ہمیں چوکسی تھی برتنی پر، یہاں چونکتا کوئی اور ہے

0
32
نعتِ سرکارؐ کو گنگناتے چلو
محفلوں میں محبت بڑھاتے چلو
ورد صؐلَِ علیٰ کا روا ہم رکھیں
"قلب کو نور سے جگمگاتے چلو"
جب جلوسِ عقیدت ہو میلاد کا
تب قدم سے قدم بھی ملاتے چلو

0
23
سامنے بطحہ کا ہی منظر ہے
کب سے دل ہو چلا یہ مضطر ہے
عزم گر پنپے گا زیارت کا
نیکی کا کھول دے گا دفتر ہے
سینہ میں ہو مدینہ کی چاہت
اپنے ایمان کا وہ جوہر ہے

0
20
فرقہ میں ہر کوئی منقسم ہو گیا
باہمی الجھنوں میں بھی گُم ہو گیا
لوٹ آئی ہے چہرے پہ کچھ تازگی
"تم کو دیکھا تو غم میرا کم ہو گیا"
دست بوسی ہو جب اپنے استاد کی
رب کے شکرانے میں سر یہ خم ہو گیا

0
14
تسخیرِ دل کو سہل یہ اشعار کرتے ہیں
بدمزگی میں بھی روح کو سرشار کرتے ہیں
آوازِ احتجاج خطا بن گئی ہے اب
گر شکوہ لب ہوں، بر سَرِ پیکار کرتے ہیں
لڑوا کے خوب لطف اٹھائیں گے وہ سبھی
مل کے چلو عوام کو بیدار کرتے ہیں

28
کل جہاں کی ہدایت پہ لاکھوں سلام
مُہرِ ختمِ رسالتؐ پہ لاکھوں سلام
دشمنوں سے شگفتہ بیاں ہی رہے
"مصطفیٰؐ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام"
جو ستاروں کی مانند کہلائے ہیں
جاں فدا سے شفقت پہ لاکھوں سلام

2
30
بِپتا کبھی تو اپنی بتائیں گے ایک دن
پارینہ داستان سنائیں گے ایک دن
چاہت پہ اعتبار نہیں ہو اگر مرے
"سینے کے داغ تم کو دکھائیں گے ایک دن"
رسوائیوں کو ہنستے ہی جھیلا ہے سب مگر
تضحیک کا مزہ بھی چکھائیں گے ایک دن

20
سہانے جب یہ منظر بولتے ہیں
موافق اس کے خُوگر بولتے ہیں
سکھایا ہے جنہیں طرزِ تکلم
"وہ اپنی حد سے بڑھ کر بولتے ہیں"
عُلّوِ شان کا ادراک ہو تب
ثنا خوانی میں منکر بولتے ہیں

26
حق کی رہ میں آگیا گر درمیاں صحرا تو کیا
مل ہی جائے راستہ ہو سامنے دریا تو کیا
ہر ستم بھی عشق کا مجھ کو گوارہ جب یہاں
"میں اگر محفل میں اس کی ہو گیا رسوا تو کیا"
لوگ آنے سے کبھی تو کارواں بن جائیں گے
جانبِ منزل چلا ہوں میں اگر تنہا تو کیا

0
22
آپؐ کےسب عدو باوفا بن گئے
جاں کے پیاسے تھے پر جاں فدا بن گئے
مٹ گئی دل سے ساری کدورت بھی جب
"سارے چہرے یہاں آشنا بن گئے"
فاقہ سہ کر کھلایا غریبوں کو ہے
اپنے ایثار سے وہ سخا بن گئے

0
17
پیش نذرانہ ہے عقیدت کا
وقتِ میلاد ہے مسرت کا
جان و اولاد سے زیادہ ہو
"آپؐ سے رابطہ محبت کا"
رتبہ نبیوں میں عرفہ ہے کتنا
کملی والؐے کی اُونچی عظمت کا

0
21
طیبہ کی یاد نے مجھے آخر رُلا لیا
اشکوں کے بکھرے موتیوں نے رب کو منا لیا
عشقِ نبؐی نے رنگ دکھانا ضرور تھا
"سرکارِؐ دوجہاں نے جو اپنا بنا لیا"
چھلکے گی تب عمل سے عقیدت کی چاشنی
سینہ کو اپنے جب درُودوں سے سجا لیا

0
30
آس تو مدینہ جانے کی میری روشن ہے
عزم پنپے گر دل میں تو حسین گلشن ہے
عاصی کی دعا ہو کیسے قبول کیا جانوں
"آج کل مرے دل میں اک عجب سی الجھن ہے"
گڑگڑا کے یارب مَیں التجا کروں تجھ سے
ٹوٹے دل کی سنتا بھی تُو ضرور یہ ظن ہے

0
17
ہے خواب سینہ میں دیرینہ اک سجایا ہوا
دل و دماغ پہ ہر لمحہ جیسے چھایا ہوا
خمار سے ہو عیاں راز ان کی مدہُوشی کا
نہ جانے کون سا نشہ ہے ان پہ چھایا ہوا
گداگری نے ستم دیکھو کیسے ڈھائے ہیں
عزیز تھا جو کبھی آج وہ پرایا ہوا

0
33
مِرا اک نیا مَیں جہاں چاہتا ہوں
سکوں چاہتا ہوں، اماں چاہتا ہوں
تبسم شگُوفوں، گُلوں پر نچھاور
بہاریں ہو ایسا سماں چاہتا ہوں
نہیں مڑ کے ہرگز مجھے دیکھنا ہے
فتوحات کا کہکشاں چاہتا ہوں

0
29
اصلاح روح کی ہو، مددگار مدرسہ
دُوری ہو گر مِٹا سکے، معمار مدرسہ
علماءِ عصر داد کے سارے دُلارے ہوں
"علم و عمل کی حرص کا ہے دار مدرسہ"
مولا سے لَو لگے گی دلوں کے مکاں مکاں
سدھرے گا ہر کسی کا سَو کردار مدرسہ

0
54
حیران یہاں کیوں یہ بشر دیکھ رہے ہیں
مسمار بھی ہوتے یہ نگر دیکھ رہے ہیں
جن کو بڑے ہی شوق سے پروان چڑھایا
وہ ہر سُو زمیں دوز شجر دیکھ رہے ہیں
ماقبل تو بدلے کبھی تیور نہ تھے اُن کے
"ہاں آج بہ انداز دگر دیکھ رہے ہیں"

0
17
نظامِ دہر کا رمزِ نہاں ہے
جہاں اک کلبۂِ محنت کشاں ہے
فریضہ جو نبھائے رہبری کا
ملے اُس کو حیاتِ جاوداں ہے
شکن سے عکس ظاہر ہو رہا ہے
"تفکر تیرا ماتھے سے عیاں ہے"

20
استاد کو ہمیشہ ہو معیار کی تلاش
طُلبا کے بیش قیمتی کردار کی تلاش
حالات کے تھپیڑوں نے مجبور کر دیا
"ہوتی نہ ہم کو سائہِ دیوار کی تلاش"
مطلب پرست یار تو کثرت سے ملتے ہیں
رہتی ہے ِاس لئے کسی دلدار کی تلاش

2
44
اُڑانیں اُونچی جو بھرتا نہیں ہے
وہ منزل کا نشاں پاتا نہیں ہے
تمازت مِہر کی جھیلی ہو جس نے
حوادث سے وہ گھبراتا نہیں ہے
تقاضہ وقت کا تھا اور ہی کچھ
"شعور اس دور کا پختہ نہیں ہے"

2
22
لب پہ رہتا ہے نام دلبر کا
حال کیا جانے کوئی مضطر کا
کاوشوں سے مِری درخشاں ہو
"ہر ستارا مرے مقدر کا"
لُوٹ لیتے ہیں مال رہزن ہی
راہ بھٹکے ہوئے مسافر کا

20
دل میں ترے گر پیار ہوگا
پھر کہیں تو اظہار ہوگا
چاہے دل وجاں سے وہ تمہیں
ایسے میں کیوں انکار ہوگا
سرخی پر دوڑے گی نظر
سامنے جب اخبار ہوگا

26
محنت پہ گامزن ہی سچائی کا رستہ ہے
عزت کمانے کا یہی آسان نکتہ ہے
یخ بستہ سارے عزم و ارادے ہیں ہو چلے
فتنوں کو سہتے سہتے بھی یہ دل شکستہ ہے
بے روزگاری اک بڑی ناسور بن چکی
ہر کوئی تنگدستی کے باعث گرفتہ ہے

18
فکر لاحق ہو گزر جائے نہ مہلت اپنی
جب تلک سانس چلے باقی ہے مدت اپنی
کروٹیںں لے رہے ہیں مکر کے ٹولے مل کر
"دیکھو دیکھو نہ بکھر جائے یہ ملت اپنی"
نوجواں نسل سے تعلیم نکل جائے تو
بے ثمر ہوتی ہے ساری کڑی محنت اپنی

28
حالِ دل چشم سے اکثر ہی عیاں ہوتا ہے
کون سمجھے یہ بَھلا عشقِ نہاں ہوتا ہے
چاک جب پردے تخیل کے ہو جائیں سارے
"آپ آئے ہیں مجھے ایسا گماں ہوتا ہے"
امتحاں عشق کے ہوتے ہیں مسلسل صاحب
جیسے انجم سے پرے کوئی جہاں ہوتا ہے

20
طیبہ کے حسیں منظر آنکھوں میں سما جائیں
پاکیزہ فضائیں دل بھرپور لبھا جائیں
ہر وقت بسی الفت سینہ میں نبیؐ کی ہے
"خوابوں میں مرے آقؐا جلوہ جو دکھا جائیں"
خوش بختی ہو کالی کملی والےؐ کی امت پر
میزان کے دن امت کی بگڑی بنا جائیں

34
مقصد کو اپنے تُو کبھی پہچان جائے گا
باطن میں بڑھتے پھر تِرے ایمان جائے گا
تاریکیوں کے ڈیروں میں گِھرتا ہی جائے گا
"دل سے اگر کبھی ترا ارمان جائے گا"
لعنت خدا کی آئے گی اُس شخص پر اگر
ناخوش، شکوہ لب ہوئے مہمان جائے گا

33
ظلمت کی گھٹائيں تو چھٹتی ہیں چراغوں سے
وحشت بھی گلستاں کی مٹتی ہے بہاروں سے
اندازہ ہے گر باد و باراں کی ہواؤں کا
"للکارتے ہو کیوں تم طوفاں کو کناروں سے"
جب تذکرہ کرتے ہو اغیار کی خوبی کا
ِگر جاتے ہو پل بھر میں ہمدم کی نگاہوں سے

0
22
طوفاں کے اٹھ جانے سے گھبرائيں کیوں
موج کے شور مچانے سے گھبرائيں کیوں
ہمت و حوصلہ گر ہو بلند تو خوف ہے کیوں
رنج و مصائب آنے سے گھبرائیں کیوں
جب نظروں سے نظر مل ہی جائے تو پھر
دل کا حال سنانے سے گھبرائيں کیوں

26
لازمی دل میں الفتیں رکھنا
"چند لمحوں کی فرصتیں رکھنا"
نیک ظرفی کی ہے یہی پہچاں
مفلسوں سے بھی نسبتیں رکھنا
کوئی ہرگز نہ ورغلا پائيں
عزم ہو جب نہ نفرتیں رکھنا

39
کون اس کجروی کے مجرم ہیں
سارے ہی بد روی کے مجرم ہیں
لاکھ الزام سر پہ آئے تو کیا
"ہم فقط دوستی کے مجرم ہیں"
گائے جن کے قصیدے جاتے ہیں
بیشتر دھاندلی کے مجرم ہیں

0
47
ہمدردی جتاتے ہیں انسان نظرآئے
اوباش صفت والے حیوان نظرآئے
تحقیق کے بن رہتا دشوار ہدف پانا
عجلت جو برتتے ہیں نادان نظر آئے
بارعب بنے رہنے کا حاوی نشہ جب ہو
پھر سارے تعیش کے سامان نظر آئے

0
51
خواب گر دل میں سجائے گا تو چھا جائے گا
ذات کو اپنی بچھائے گا تو چھا جائے گا
ہستی کو کر تُو فنا رتبہ یہاں پانے کچھ
"یاد رکھ خود کو مٹائے گا تو چھا جائے گا"
فصل زرخیز زمیں سے تو بہت پائے گا
کشتِ ویراں میں اُگائے گا تو چھا جائے گا

0
73
کاہلی کو برتنے سے رسوا ہوا
حال بھی ہو چلا کیسے بکھرا ہوا
اک تبسم نے ایسا اثر کر دیا
"کیا کہوں دل مرا تیرا شیدا ہوا"
قدر ہر پھول کی ہوتی جس گھر میں ہے
مثلِ گلشن مکاں پھر وہ رعنا ہوا

0
46
دشواریوں سے ہی جزبوں میں نکھار آئے
جزبے ہی نا ہو گر نفسِ خلفشار آئے
بے لطف رونقوں میں کچھ جان لوٹ آئے
"اس زندگی میں لے کر کوئی بہار آئے"
اُس پار سوچتا ہوگا یار تو یہی بس
کشتی چلانے الفت کی کب جوار آئے

0
28
بندے خدا کے عشق میں جو بھی فنا ہوئے
ایمان کے ہی بول زباں سے ادا ہوئے
جزبے صحابہ کے بنے جب دین کے لئے
عشقِ رسول میں تبھی کیسے فدا ہوئے
محسوس عار ہو کہ قدم ڈگمگاتے ہیں
مردم شماری رہتے بھی بے دست و پا ہوئے

0
65
بچا فرارِ قفس کا نشان تھوڑی ہے
محافظین ہیں شامل، امان تھوڑی ہے
ہوس نے توڑ کے انساں کو رکھ دیا کیسے
نبھائے فرض کو وہ، پاسبان تھوڑی ہے
فریب میں نہیں آنا ہے شعلے گر بھڑکیں
"یہ سب دھواں ہے کوئی آسمان تھوڑی ہے"

0
46
سپنہ ہی گر کسی نے دیکھا ہو
پانے کی پھر اُسے تمنا ہو
سوزِ دل ہجر سے ہرا جب ہو
"موسمِ گل ہو کوہِ صحرا ہو"
گرمی لُو سہتے سہتے تھک جائیں
شمس ڈھل جائے اور سایہ ہو

0
45
فسانے اپنے جو اقدار کے ہیں
تمدن اور وہ معیار کے ہیں
حسد والوں سے بھی الفت نبھائی
"عدو قائل مرے ایثار کے ہیں"
ترے کُوچہ میں رکھتے ہم قدم ہیں
بہانے رہتے بس دیدار کے ہیں

0
34
بندہ تھا وہ بڑا نیک گزرا امین
ڈھونڈتے اب رہو اُس کو، ایسا امین
قابلِ داد و تحسین پایا سخن
"منفرد تھا لب و لہجہ تیرا امین"
رہتی تاثیر شعروں میں اُن کے بہت
جو بھی پڑھتا ادب ہوتا شیدا امین

0
61
سفینہ پیار کا اپنے نہ جانے کیوں بھنور میں ہے
سہانا خواب جو دیکھا پھنسا کیوں وہ ڈگر میں ہے
کٹھن ہے راستہ پر حوصلہ مضبوط ہے کتنا
سمندر پاؤں کے نیچے ہے اور صحرا نظر میں ہے
کمالِ عشق کا بھی مقتضا رہتا یہی بس ہے
صنم کو سوز ہو تو ٹیس جو اُٹھنی جگر میں ہے

0
53
غموں کو سینہ میں رکھا سجا کے
کِیا برتاؤ بھی تھا مسکرا کے
حسیں چہرہ ادائیں شوخ و چنچل
"وہ اوجھل ہو گیا جلوہ دکھا کے"
گوارہ کرب سارے عشق میں تھے
سہے ظلم و ستم وعدے نبھا کے

0
76
ہے آجکل زمانہ بڑا ہی بدل گیا
دیکھو جسے وہ حد سے ہی اپنے نکل گیا
کچھ اختیار دل پہ بھی اپنے نہیں رہا
"سب ہاتھ سے شباب کا ریشم پھسل گیا"
اتراتے ہیں اُنہیں تو اشارہ ہی کافی ہو
ڈھلتا ہوا جو شمس تھا آخر وہ ڈھل گیا

0
60
دنیا میں پھیلی ہر سُو زینت ہے تجھ سے عورت
ناقابلِ بیاں سی وقعت ہے تجھ سے عورت
کیسے ہو تزکرہ قدر و منزلت کا تیرے
حاصل رہا جو رتبہ، عظمت ہے تجھ سے عورت
نبیوں کی اور ولیوں کی مائیں بن سکی ہوں
کیسی بلند و عرفہ خلقت ہے تجھ سے عورت

0
44
رنگ بگڑا ہو گر اُن کے رخسار کا
حال بے حال ہو ناز بردار کا
ظلمِ تنہائی سے زخم تازہ ہُوئے
"یک بیک بڑھ گیا درد بیمار کا"
دوڑ پیسہ کی جب حاوی ہو جاتی ہے
حق بھی تب چھین لیتے ہیں حقدار کا

0
66
زندہ دلی کے ساتھ ہی سارے جِیا کرو
مردہ دلی برتنے سے دوری کِیا کرو
جزبہ وصال کا تو بھرم کچھ رکھا کرو
"ہر رات اپنے لطف و کرم سے ملا کرو"
گر الجھنیں بھی آئیں سرِ راہ حرج کیا
احساسِ کمتری کو نہ ہونے دیا کرو

0
46
جب سے آنکھوں میں پیار دیکھا ہے
دھڑکنوں میں اُبھار دیکھا ہے
وصل کی پُر حسیں بہاروں سے
دل میں بڑھتا قرار دیکھا ہے
یادِ دلبر ستانے لگ جائے
پھر ابھرتا خمار دیکھا ہے

0
55
پیار میں جب دو دل بچھڑتے ہیں
ٹوٹ کے کیسے وہ بکھرتے ہیں
مفلسی نے بے حال کر چھوڑا
"لوگ ہر سُو یہاں پہ مرتے ہیں"
اشک جو چشم سے نکلتے ہیں
سوئی تقدیر کو سنورتے ہیں

63
ڈر لگے اب نئے زمانے سے
لوگ رہتے ہیں کچھ دِوانے سے
ہر سُو چھائی بہار ہے کیسی
"کِھل اٹھے پھول تیرے آنے سے"
دور تک شائبہ نہیں سچ کا
لغو جو سارے ہیں بہانے سے

0
44
بے بندگی سے جینے میں عزت نہ ملے گی
بے شرمی کو برتنے سے بھی عفت نہ ملے گی
گر دل کی عدالت میں ہو درخواست بھی تو کیا
"اب حرفِ تمنا کو سماعت نہ ملے گی"
مسکان ہی غم میں ہے کرن بن کے ابھرتی
مایوس ہو جاتے ہیں تو فرحت نہ ملے گی

0
57
امید مجھے قوی ہے کہ دلبر بھی آئیگا
روشن چراغ کر دئے، ہمسر بھی آئیگا
ہمسایہ کی ہر ایک چُبھن ہنس کے ہی سہے
"آنگن میں پیڑ ہوگا تو پتھر بھی آئیگا"
غلبہ رہے امیری کا گھر میں کسی کے گر
دولت کی ریل پیل ہو، نوکر بھی آئیگا

0
44
شہروں میں کیسے امن و اماں تک نہ رہ گیا
سامانِ عیش اور مکاں تک نہ رہ گیا
مجذوب بے نیازی کی حالت میں کہہ سکے
"ارض و سما کا کوئی نشاں تک نہ رہ گیا"
دنیا تو خواب سی ہے طلسماتی بس چمک
ارمانوں کا بھی اب یہ جہاں تک نہ رہ گیا

0
45
پل میں عسرت بھی تو ٹل جاتی ہے
اپنی تقدیر بدل جاتی ہے
یوں چہ منگوئیاں کرتے کرتے
"بات سے بات نکل جاتی ہے"
نقش یادوں کے ابھرتے ہیں تب
شام جب سرمئی ڈھل جاتی ہے

0
51
کچھ وجہ ہے ثمر نہیں لگتا
قد میں تو کم شجر نہیں لگتا
فہم و افکار سے لگے ایسے
"کوئی اہلِ نظر نہیں لگتا"
مشکلیں تب ڈراتی جاتی ہیں
جب بھی سینہ سپر نہیں لگتا

0
44
فرشتوں کی صفت جیسے بچے بھرتے نظر میں ہیں
وہ سب ماں باپ کی اپنے بہت جچتے نظر میں ہیں
ضعیفی کا سہارا، آنکھ کے تارے بھی ہوتے ہیں
جواں ہو جائے جب وہ خوابوں کو بھرتے نظر میں ہیں
دعائیں کرتے مستقبل سنورنے کی ہمیسہ وہ
نمایاں کامیابی پانے سے سجتے نظر میں ہیں

0
49
دلکش جو پھول رہتا چمن میں کِھلا ہوا
سہرے کی جان بھی وہی رہتا بنا ہوا
کچھ احتیاج آن پڑی فوری طور پر
اس واسطے مزید رہا وہ رکا ہوا
خواہش بچھڑنے کی نہیں ہرگز بسائی تھی
"یہ اور بات تھی کہ وہ مجھ سے جدا ہوا"

0
66
چاند جیسا چہرہ نا جانے ہے کیوں اترا ہوا
یار کی فرقت میں ہے کیوں حوصلہ فرسا ہوا
ہر طرف مایوسی کے ہی ڈیرے رہنے کے سبب
"رنگِ انساں لگ رہا ہے آج کل بکھرا ہوا"

0
65
ہر بات گہرائی میں دل کے ہے بسانی آپؐ کی
ہو سرخروئی جس نے بھی ہے بات مانی آپؐ کی
شہ انبیا، سرکارِ دو عالم، شہِ بطحیٰ ہو تم
دونوں جہاں میں مصطفیٰ ہے حکمرانی آپؐ کی
شہرِ مدینہ کی زیارت سے سکوں، فرحت ملے
"حیرت سے تکتے رہے ہر اک نشانی آپؐ کی"

0
49
آپسی جھگڑوں سے کیسی ناگواری ہوتی ہے
جگ ہنسائی سے بھی کتنی شرمساری ہوتی ہے
بچھڑے ہیں محبوب سے تو تازہ دم ہی ہم مگر
ہجر کی تنہائیوں سے بے قراری ہوتی ہے
دید اپنوں کی نہیں ہونے سے دل مایوس ہو
عید کا تہوار رہتے سوگواری ہوتی ہے

0
49
فرض سے جب کوئی کلی طور بے پروا ہوا
بندہ تب مقصد سے ہی اپنے وہ بے بہرہ ہوا
نیم شب کا تھا جو سپنا وہ حقیقت بن گیا
"رات اپنے خواب کی قیمت کا اندازہ ہوا"
قدرداں چُھو لیتے ہیں منزل کو اکثر ہی یہاں
وقت کی قیمت نہ پہچانا وہ تو رسوا ہوا

0
48
غیر کے در پہ بھی سوال نہ کر
ہاتھ پھیلانے کا خیال نہ کر
وصل کی خواہشیں پنپ رہی ہوں
"حسرتوں کو مری حلال نہ کر"
دُکھ کا طُوفان اُٹھ کھڑا ہو گر
غم شکستہ کبھی یہ حال نہ کر

0
59
الفت نبیؐ سے کرنا ہمارا شعار ہے
اللہ کے راستے کے لئے جاں نثار ہے
سن لی دعا مدینہ پہنچنے کی رب نے ہے
یہ تو دلیلِ رحمتِ پروردگار ہے
آنکھیں ترس رہی ہیں زیارت کے واسطے
چھایا بھی سبز روضہ کا ہی جو خمار ہے

0
63
محبوب کی یادیں جب آتی ہیں خیالوں میں
نگہت سی مہکنے لگ جاتی ہے سانسوں میں
تِتلی کی عدم دلچسپی تو یہی بتلائے
خوشبو نہ رہی باقی امسال گلابوں میں
اصلاحی نظر ہو تو انسان سنور جائے
خطرات تو ظاہر ہوتے رہتے اجالوں میں

0
48
گر ڈوب رہا کوئی بچا کیوں نہیں دیتے
کچھ فرض تو بنتا ہے، نِبھا کیوں نہیں دیتے
گُھٹ گُھٹ کے تو جینے سے لگے مرنا ہی بہتر
"اک بار ہی جی بھر کے سزا کیوں نہیں دیتے"
جُنبش دے لبوں کو تو سمجھنا رہے آساں
جو بات ہے دل میں وہ بتا کیوں نہیں دیتے

0
47
منصوبہ بندی کیسے ہے کرنا ہم نے سوچ لیا
ناکامی سے پُورے طور اُبھرنا ہم نے سوچ لیا
سمجھائش کا ان کے ہوا تھا اثر دل پر اتنا گہرا
دامن پر لگے سارے داغ مٹانا ہم نے سوچ لیا
گردِشِ دوراں ہو یا کچھ ہو موافق سے حالات کبھی
وعدوں کو اپنے ہر حال نبھانا ہم نے سوچ لیا

0
62
خدا نے کیسے تماموں کی آبرو رکھ لی
اُٹھے ہُوئے سبھی ہاتھوں کی آبرو رکھ لی
زباں سے بول عیادت کے ہی ادا جب ہوں
"مزاج پوچھنے والوں کی آبرو رکھ لی"
رہی تھی فاقہ کشی سے روِش دگرگوں سی
سُدھر گئے اُنہیں حالوں کی آبرو رکھ لی

0
38
بات بہتر پہلے سمجھا کیجئے
تب قدم آگے بڑھایا کیجئے
خوف دشمن کا نہیں رکھنا کبھی
"اپنے بازو پر بھروسہ کیجئے"
آس سے ہی مسئلے حل ہوتے ہیں
یاس و حسرت کو نہ پالا کیجئے

0
36
معراج کا سفر تھا محبوبؐ پر عنایت
طائف کے گہرے زخموں سے پائی تھی طراوت
براق کی سواری، جو تیزی سے بھی پہنچی
نبیوں کی مسجدِ اقصٰی میں ہوئیں امامت
انعام میں خدا نے مخصوص ہدیہ بخشا
لائیں نماز کا تحفہ واسطے عبادت

0
44
جھڑک کے شخص جو انکار کرنے والا تھا
کبھی وہ نرمی سے گفتار کرنے والا تھا
گلاب کے ہی تھے کچھ پھول ہاتھوں میں اس کے
"وہ اپنے عشق کا اظہار کرنے والا تھا"
غرور میں ہی مگن رہتے وقت گزرا تھا
بڑی بے شرمی سے پندار کرنے والا تھا

0
49
دور ہو جائے رنج و غم کیسے
حزن سے پار نکلیں ہم کیسے
یاد جب آ گئی ہے ان کی تو
"آنکھ پھر ہو گئی ہے نم کیسے"
شکر رب کا ہو لازمی پورا
کر رہیں ہیں جبین خم کیسے

0
53
نعتوں کو لکھتے لے لوں میں قربت ہے آپؐ کی
دل میں بڑھاتے جاؤں عقیدت ہے آپؐ کی
دندان بھی شہید ہوئے تھے حضورؐ کے
غزوہ احد کی ایسی شجاعت ہے آپؐ کی
جب لاش حمزہؓ کی بے کفن پائی تھی وہاں
بڑھتی گئی تھیں ٹیسی