ہوتی ہے لوگوں کو لغو سی بات پہ حیرت، جانے دو
|
حضرت انساں کی رہتی ہے بس یہی فطرت جانے دو
|
ہے پر لطف سماں بھی اور ہیں پر آشوب فضائیں بھی
|
ہر سو ہنگام گل بھی، اور ملال بکثرت جانے دو
|
کیا او ستم راں بھول گئے تم، جو اسباب زوال رہیں
|
صد افسوس نہ روک سکے بھی اپنی بغاوت جانے دو
|
|