رنج و افسوس کا بھی ہے اظہار شاذ
اپنی ہے خامیوں کا بھی اقرار شاذ
آجکل ہو گیا حسن کردار شاذ
ہے کٹھن پا سکے، نیک گفتار شاذ
خود پرستی میں انساں جکڑنے لگا
صدق دل سے کرے کوئی ایثار شاذ
عیش و عشرت کی چلمن میں ہے مست کن
لائق دید و تحسیں ہو شہکار شاذ
خود سری پہنچی ہے اب لب بام تک
قوم و ملت کا ہو حامی و غمخوار شاذ
جاہ و حشمت کے ہے سامنے خم جبیں
دور حاضر میں رہتے وفادار شاذ
لہجہ ہو نرم ناصؔر، رہے موم دل
سخت گو ہیں بہت، پر ملنسار شاذ

0
18